احمد بن علی نجاشی

احمد بن علی نجاشی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 982ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1058ء (75–76 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سامراء   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل تشیع
فقہی مسلک جعفری
عملی زندگی
پیشہ رجال شناس ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو العباس احمد بن علی المعروف نجاشی، پانچویں صدی ہجری کے اوائل میں علم اسمائے رجال کے ایک بہت بڑے اور جیّد شیعہ عالم ہو گذرے ہیں۔ وہ سُن 372 ہجری کو بغداد میں پیدا ہوئے اور سُن 450 ہجری کو 90 سال کی عمر میں مطر( سامراء میں نہر فرات کے قریب ایک گاؤں) میں وفات پائی۔

زندگی

ابوالعباس (یا ابو الحسن)[2][3] احمد بن علی بن عباس بن محمد بن عبدالله بن ابراهیم بن محمد بن عبدالله اسدی المعروف نجاشی چوتھی صدی ہجری کے اواخر اور پانچویں صدی ہجری کے ابتدائی دور کے مذہب امامیہ کے جیّد عالم اور علم اسماء الرجال کے انتہائی ماہر اور اپنے دور کے نامور شیعہ علما میں سے تھے۔[4][5][6]

اساتذہ

احمد بن علی نجاشی اپنے ہمعصردنیائے اسلام کے جیّد و نابغہ روزگار علما مثلاً شیخ طوسی، سید رضی، سید مرتضی اور سلار بن عبد العزیز کے ہمراہ چوتھی صدی ہجری کے عظیم شیعہ عالم اور متکلم مُحمّد بن مُحمّد بن نُعمان المعروف شیخ مفید کی شاگردی میں رہے اور ان سے بہت سے شیعہ علما کی کتب تشریح و بسط کے ساتھ پڑھیں۔ [7][8][9]

شہرت و مہارت

نجاشی نے اگرچہ مختلف مدارس سے دینی و فقہی تعلیم حاصل کی لیکن ان کی شہرت اسمائے علم الرجال اور روایان پر تعدیل و جرح میں مہارت کی وجہ سے ہے۔

وفات

شیعیان بغداد کی سرکوبی کے بعد احمد بن علی نجاشی جمادی‌الاول 450 هـجری میں مطر ( سامراء میں نہر فرات کے قریب ایک گاؤں) منتقل ہو گئے تھے اور وہیں پر وفات پائی۔ [10][11][12][13]

تصانیف

فهرست اسماء مصنفی الشیعه معروف به رجال نجاشی (ان کی کتب میں سے یہی ایک دستیاب ہے۔[14][15][16])

الجمعه و ما ورد فیه من الاعمال

الکوفه و مافیه من الاثار و الفضائل

انساب بنی نصر بن معین و ایامهم و اشعارهم

مختصر الانواء (الانوار) و مواضع النجوم اللتی سمعتها العرب

اخبار الوکلاء الاربعه (صرف سبحانی نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔[17]

اخبار بنی سنسن (دربارهٔ خاندان زرازه بن اعین[18])

[شاید] کتابی در تفسیر[19][20]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب ناشر: او سی ایل سی — وی آئی اے ایف آئی ڈی: https://viaf.org/viaf/90057122 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 مئی 2018
  2. میرزا محمد باقر خوانساری موسوی اصفهانی، ج1، ص60
  3. مجید معارف، ص 39
  4. آقا بزرگ طهرانی، ج 10، صص154٬155
  5. سید علی میر شریفی، ص 164
  6. عبدالهادی فقهی زاده و مجید بشیری، ص142
  7. انتباہ حوالہ: همان کے نام کے حامل <ref> ٹیگ کی نمائش نہیں دیکھی جا سکتی کیونکہ اسے یا تو اس قطعہ سے باہر کسی اور جگہ رکھا گیا ہے یا سرے سے رکھا ہی نہیں گیا۔
  8. غلامرضا عرفانیان، هـ. ق1417ق؛ ج1، ص4
  9. میرزا حسین نوری طبرسی، 1415هـ. ق؛ ج3؛ صص421–424
  10. انتباہ حوالہ: نرگس مجیدی نسب، ص120 کے نام کے حامل <ref> ٹیگ کی نمائش نہیں دیکھی جا سکتی کیونکہ اسے یا تو اس قطعہ سے باہر کسی اور جگہ رکھا گیا ہے یا سرے سے رکھا ہی نہیں گیا۔
  11. انتباہ حوالہ: عمادی حائری، ص144 کے نام کے حامل <ref> ٹیگ کی نمائش نہیں دیکھی جا سکتی کیونکہ اسے یا تو اس قطعہ سے باہر کسی اور جگہ رکھا گیا ہے یا سرے سے رکھا ہی نہیں گیا۔
  12. علامه حلی، ص21
  13. سید علی میر شریفی، ص 170
  14. سید علی میر شریفی، ص171
  15. عمادی حائری، ص 144
  16. نرگسمجیدی نسب، صص124-123
  17. جعفر سبحانی، صص52–63 به نقل از محمد تقی دیاری بیگدلی، 1384، ص213
  18. اشاره نجاشی به این کتاب در فهرست: ذیل نام احمد بن محمد بن محمد ابوغالب زراری، صص83٬84
  19. آقابزرگ طهرانی، ج 3، ص281, ج4، ص317, ج5، ص140
  20. خیرالدین زرکلی، بی تا، ج1، ص172