الہام
الہام سمجھ دینے اوردل میں کوئی بات القاء کرنے کے معنی میں آتا ہے۔[1] اصل معنی نگلنے کے ہیں چونکہ الہام میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل میں ایک بات اتاری جاتی ہے اس واسطے اس کا نام الہام ہوا۔ لیکن یہ لفظ ایسی بات کے القاء کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے جو اللہ تعالیٰ یا ملا اعلیٰ کی جانب سے کسی کے دل میں ڈالی جاتی ہے ۔اللہ کی طرف سے انبیاء یا اولیاء کو جو اطلاع یا ہدایت روحانی طور پر دی جاتی ہے۔ اس کو الہام کہتے ہیں۔ اس میں مرد اورعورت کی تخصیص نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت اور سلامتی کے متعلق الہام خداوندی ہوا تھا، جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کو بھی الہام ہوتا تھا۔ الہام سوتے اور جاگتے دونوں حالتوں میں ہو سکتا ہے۔ لیکن صرف خدا کے برگزیدہ بندوں کو ہی ہوتا ہے۔ اس لیے صفائی قلب، اعمال حسنہ اور یقین کی درستی کے ساتھ تائید توفیق الہی ضروری ہے۔ اسی کی ایک قسم کشف ہے۔ وحی انبیا کے لیے مخصوص ہے۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے جب اللہ عزوجل کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تواسے دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور رشد وہدایت الہام فرما دیتا ہے۔ '[2]