سامری (شخصیت)

سامری موسی علیہ السلام کی قوم کا جادوگر جس نے قوم کو بچھڑے کی پوجا پر لگا دیا تھا۔ قرآن میں یہ نام تین بار استعمال ہوا سورہ طٰہٰ کی آیات 85،87 اور 95 میں۔

سامری کانام

مشہور یہ ہے کہ سامری کا نام موسیٰ ابن ظفر تھا۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ موسیٰ سامری پیدا ہوا تو فرعون کی طرف سے تمام اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا حکم جاری تھا اس کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعونی سپاہی اس کو قتل کر دیں گے تو بچہ کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنے کی مصیبت سے یہ بہتر سمجھا کہ اس کو جنگل کے ایک غار میں رکھ کر اوپر سے بند کر دیا (کبھی کبھی اس کی خبر گیری کرتی ہوگی) ادھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو اس کی حفاظت اور غذا دینے پر مامور کر دیا وہ اپنی ایک انگلی پر شہد ایک پر مکھن ایک پر دودھ لاتے اور اس بچہ کو چٹا دیتے تھے یہاں تک کہ یہ غار ہی میں پل کر بڑا ہو گیا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ کفر میں مبتلا ہوا اور بنی اسرائیل کو مبتلا کیا پھر قہر الٰہی میں گرفتا ہوا۔ (از روح المعانی)[1]

سامری کی حقیقت

یہ اس شخص کا نام نہیں ہے بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی نسبت ہی ہے خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ مولانا ابوالکلام آزادنے ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں قیاس کہتا ہے کہ یہاں سامری سے مقصود سمیری قوم کا فرد ہے کیونکہ جس قوم کو ہم نے سمیری کے نام سے پکارنا شروع کر دیا ہے عربی میں اس کا نام قدیم سے سامری آ رہا ہے اور اب بھی عراق میں ان کا بقایا اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں قرآن کا السامری کہہ کر اسے پکارنا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہیں، اس کی قومیت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی وہ شخص اسرائیلی نہ تھا، سامری تھا۔ اس سے چند سطور آگے چل کر مولانا آزاد لکھتے ہیں (بہرحال سمیری قبائل کا اصل وطن عراق تھا، مگر یہ دور دور تک پھیل گئے تھے۔ مصر سے ان کے تعلقات کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح تک روشنی میں آچکا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ اسی قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ کا بھی معتقد ہو گیا تھا اور جب بنی اسرائیل نکلے تو یہ بھی ان کے ساتھ نکل آیا۔ اسی کو قرآن کریم نے السامری کے لفظ سے یاد کیا ہے۔) [2] مولانا عبد الماجد دریا بادی کی تحقیق یہ ہے (بعض جدید محققین کا خیال ہے کہ قدیم مصری زبان میں سمر کہتے ہیں پردیسی، غیر ملکی، بیرونی کو۔ سامری سے مراد ہے کوئی شخص جو غیر اسرائیلی تھا اور مصر سے اسرائیلی کے ساتھ ہو گیا تھا۔) [3] بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ السامرۃ بنی اسرائیل کے قبائل میں سے ایک قبیلہ ہے۔ سامری اسی قبیلے کا فرد تھا۔

سامری کا فتنہ

سامری نے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ تم اپنے زیورات میرے حوالے کردو، میں انھیں بھٹی میں گلا کر اینٹوں یا سلاخوں کی شکل میں ڈھال دوں گا تاکہ سفر کی رواروی میں اس سونے اور چاندی کو سنبھالنا آسان ہو جائے، لیکن جب اس نے اس ڈھالی ہوئی چیز کو بھٹی سے باہر نکالا تو وہ ایک بچھڑے کا دھڑ تھا۔ یعنی ایک ایسا بچھڑا جسے سونے سے ڈھالا گیا تھا لیکن اس میں جان نہیں تھی۔ لیکن جب اس سے ہوا گزرتی تھی تو اس کے اندر سے بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی۔ بنی اسرائیل مصر میں رہ کر چونکہ گوسالہ پرستی کے مرض میں مبتلا رہ چکے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی ان کے سامنے ایک سنہری رنگ کا بولتا ہوا گوسالہ آیا اور پھر سامری نے نہایت ہوشیاری سے ان کو یہ باور کرایا کہ اصل میں یہی تمھارا خدا ہے جو تمھیں مصر سے نکال لایا ہے، موسیٰ تو نہ جانے بھول کر کہاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ تو بنی اسرائیل اس کے سامنے جھک گئے اور اس کے سامنے قربان گاہ بنا کر قربانیاں بھی پیش کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر جب پروردگار نے اس کی خبر دی تو انھیں نہایت دکھ ہوا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ میری سالہا سال کی محنت لٹ گئی۔[4]

حوالہ جات

  1. تفسیر معارف القرآن،مفتی محمد شفیع،سورۃ طٰہٰ،آیت85
  2. ترجمان القرآن جلد دوم، ص 464، 465
  3. تفسیر ماجدی، سورۃ طٰہٰ
  4. تفسیر روح القرآن ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ،سورہ طٰہٰ،آیت85