کریڈٹ

کریڈٹ سے مراد قرض ہوتا ہے جو کرنسی کا متبادل ہوتا ہے۔ لین دین بذریعہ کرنسی میں ادائیگی فوراً ہوتی ہے جبکہ لین دین بذریعہ کریڈٹ یا قرض کی صورت میں ادائیگی کچھ مدت بعد ہوتی ہے۔ یعنی سارے قرضوں کی طرح کریڈٹ بھی ایک معاہدہ ہوتا ہے اور کسی بھی معاہدے کی طرح یہ معاہدہ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ سارے معاہدے قابل خرید و فروخت ہوتے ہیں۔
نقدی (کرنسی) سے خریداری دراصل ماضی کی آمدنی سے خرچ کرنا ہے۔ کریڈٹ سے خریداری مستقبل کی آمدنی کی امید پر خرچ کرنا ہے-

اقسام

کریڈٹ کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہوتی ہیں۔

  • تجارتی کریڈٹ۔ اس میں قرض وصول کرنے کی نیت سے دیا جاتا ہے۔ اس سے تجارت میں سہولت ہوتی ہے۔
  • بینکنگ کریڈٹ۔ اس میں قرض وصول نہ کرنے کی نیت سے دیا جاتا ہے۔ یہاں اصل ہدف صرف سود وصول کرنا ہوتا ہے جیسے حکومتی قرضے اور گردشی قرضے۔ یہ دراصل تخلیق دولت ہے۔ اس سے افراط زر (مہنگائی) میں اضافہ ہوتا ہے۔[1] اگر کرنسی قابل تخلیق نہ ہو (جیسے سونے چاندی کے سکے) تو بینکنگ کریڈٹ ناممکن ہو جاتا ہے۔
" banks create new money when they create new credit"[2]

1919ء میں ہٹلر یہ جان کر سخت حیران ہوا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں استعمال ہونے والے کیپیٹل (بینکنگ کریڈٹ) اور (معیشت کو) قرض دیے جانے والے کیپیٹل (تجارتی کریڈٹ) میں بڑا فرق ہے۔ اُسے سمجھ میں آ گیا تھا کہ بین الاقوامی سرمائے سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے ملکی معیشت کو اسٹاک مارکیٹ سے الگ رکھنا پڑے گا۔ 1926ء میں اپنی خودنوشت[3] مائن کیمف (میری جدوجہد) میں وہ لکھتا ہے

"For the first time in my life I heard a discussion which dealt with the principles of stock exchange capital and capital "which was used for loan activities....[4] Anonymisation – the depersonalisation of our economy through the stock-marketable form of the public limited company – has to a certain degree separated capital from work[5]

تجارتی کریڈٹ کے پانچ C

بینک اور دیگر مالیاتی ادارے قرض دینے سے پہلے قرض خواہ کی درج ذیل پانچ خوبیوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔

  • Character یعنی کریڈٹ ہسٹری۔ جو قرض خواہ ماضی میں بروقت قرض ادا کرتا رہا ہے اسے قرضہ آسانی سے مل جاتا ہے۔
  • Capacity یعنی آمدنی۔ جس کی آمدنی اچھی ہو اور لمبے عرصے سے مسلسل ملازم ہو اسے قرضہ آسانی سے مل جاتا ہے۔
  • Capital یہاں کیپیٹل سے مراد قرض خواہ کی اپنی لگائی ہوئی رقم ہے۔ مثلاً زیادہ بیعانہ Down payments دینے والا قرض خواہ زیادہ سنجیدہ سمجھا جاتا ہے۔
  • Collateral یعنی کوئی چیز رہن یا گروی رکھوانے پر قرض خواہ کو قرض زیادہ آسانی سے مل جاتا ہے۔
  • Conditions قرض کی شرائط جیسے قرض کتنا چاہیے، سود کتنا ہو گا اور کب ادا ہو گا اور قرض کس مقصد کے لیے استعمال ہو گا وغیرہ۔[6]

بینکنگ کریڈٹ

  • "یاد رہے کہ معاشی بلبلے بننے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلی چیز ایک خوبصورت کہانی جس پر لوگوں کو یقین آ جائے اگرچہ یہ جھوٹی ہو۔ دوسری چیز کریڈٹ کی فراوانی۔ اور یہی کریڈٹ امریکا، یورپ اور جاپان کے سینٹرل بینک مہیا کر رہے ہیں۔ انھوں نے پوری دنیا کو کریڈٹ میں ڈبو دیا ہے۔ اب ہر طرف بلبلے نظر آتے ہیں۔ جب یہ پھٹیں گے تو یہ زندگی کی بد ترین صورت حال ہو گی کیونکہ ہم نے ایسی کوئی صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔"
"Remember, bubbles have two things that they need. Number one, a good story that people can believe in and, of course, it’s a false story. Number two, ample credit. That’s what the Fed and central banks of Japan and Europe have done. They just flooded the world with credit. Now, we have bubbles everywhere. When these burst, it will be the worst bursting in anybody’s lifetime because we have never seen anything like this.”[7]
  • سونے چاندی کی کرنسی میں قوت خرید بھی ہوتی ہے اور قوت پیداوار بھی۔ کریڈٹ میں قوت خرید تو ہوتی ہے مگر قوت پیداوار نہیں ہوتی۔
“For Credit, though it is not productive power, is Purchasing Power”[8]
  • اگر تمھیں خبر نہیں ہے کہ کریڈٹ (جاری کرنا) دولت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو تم بالکل جاہل ہو۔
If you were ignorant of this that Credit is the greatest Capital of all towards the acquisition of Wealth, you would be utterly ignorant.[9]
  • (امریکی) بینک نہ صرف اپنی اضافی رقم پر مفت منافع کما سکتے ہیں بلکہ قرض لی ہوئی رقم پر بھی یقینی مفت منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ (ہیلی کاپٹر منی)
Not only do banks earn free money on excess reserves, they can borrow money and make guaranteed free money on that.[10]
  • ملکی اور عالمی مالیاتی بحرانوں کی بنیادی وجہ مسلسل کریڈٹ جاری ہونا ہے۔۔۔مالیاتی معاملات میں سینٹرل بینکوں کی بادشاہت نے نہ صرف تاریخ کا بدترین افراط زر (انفلیشن) پیدا کر دیا ہے بلکہ اس نے مالیاتی منڈیوں کو حقیقی منڈیوں اور دیانت دار کرنسی سے بالکل جدا کر دیا ہے۔
What causes financial crises, domestic and global, is the underlying, continuing credit expansion....Central banks’ free reign over monetary matters has not only brought about the greatest age of inflation in human history, but has led to the exacerbated development of financial markets and financial instruments, no longer connected to sound money or to the ‘real’ economy. [11]
  • قرض کے بدلے حکومت پر قبضہ
debt-for-sovereignty exchange[12]
  • اس وقت (جنوری 2019ء) امریکی حکومت پر 122000 ارب ڈالر کا قرضہ ہے۔ اگر امریکی جی ڈی پی کا 10 فیصد بھی ادا کیا جائے تو یہ قرضہ ادا کرنے میں 56 سال کا عرصہ لگے گا۔
currently the US has "$122 Trillion US unfunded liabilities per Debtclock. That’s 564% of Fiscal ‘18 GDP. To fund would require 10% of GDP for 56+ yrs."[13]
  • منطق اور دیانت دارانہ معیشت کے اصولوں کے تحت آپ اپنی مشکلات مسلسل کرنسی اور کریڈٹ جاری کر کے ختم نہیں کر سکتے۔
both logic and sound economic theory tell us you cannot continually inflate your way out of trouble.[14]
  • آج دنیا کریڈٹ پر زندہ ہے۔۔۔ جبکہ کریڈٹ خود مر رہا ہے۔
Credit is the engine of the world of today....piling credit on top of credit until there are no more greater fools to sell the new debt to....The engine is dying.[15]
  • بینک کا میکانزم اس طرح کا بنایا گیا ہے کہ یہ عوام کی نجی جائداد ہڑپ کر لے۔
the banks are machines designed to slowly (or sometimes quickly) siphon private property away from the public until private property is a memory.[16]
  • بینکنگ کریڈٹ میں اضافے سے غربت بڑھتی ہے۔
“The final outcome of the credit expansion is general impoverishment.”[17]
  • دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر نجی سینٹرل بینک ہر ملک کے حقیقی حکمران کے طور پر اُبھرے کیونکہ ان کے پاس کریڈٹ جاری کرنے یا روک دینے اور شرح سود متعین کرنے کا اختیار تھا۔
By the end of WWII the privately owned central banks, with their powers to issue or withhold credit and set interest rates, had become the de facto controllers of state[18]

مزید دیکھیے

حوالہ جات