قیام حسینی کا خط الوقتحسین بن علی سے بیعت کے مطالبہ کے بعد قافلہ حسینی کی مدینہ سے روانگی سے شروع ہو کر قافلہ حسینی کی واپس مدینہ آمد تک کے واقعات کا تسلسل زمانی ہے۔
جبل ذو حسم کے مقام پر حر بن یزید تمیمی کے پیاسے لشکر کا سامنا ہوا اور امام نے حکم فرمایا انسانوں اور جانوروں کو مکمل سیراب کیا جائے۔ اور حر نے لشکر سمیت امام کی اقتداء میں نماز پڑھی اور امام نے خطاب بھی فرمایا۔
ابن زیاد کے سپاہی شہدائے کربلا کے سر ہائے مبارک کو عین الوردہ سے لے کر یہاں پہنچے۔ لوگوں نے پتھر مارے۔ ایک راہب نے پیسے دے کر سر مبارک مانگا۔ بغیر قیام کیے اگلی منزل جوسق کی طرف روانہ ہوئے۔
جوسق
قافلہ پہنچا مگر قیام نہ کیا۔
بسر
یہاں بھی قیام نہ کیا۔
دعوات
یہاں پر یزیدیوں نے حاکم کو خط لکھا کہ ہم سر امام حسین ساتھ لائے ہیں۔
↑بنی اسد عرب کا ایک بڑا مشہور و معروف اور بہادر و شجاع قبیلہ ہے جو اسد بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار کی اولاد سے ہے، علما، اصحاب و شعرا کا ایک گروہ حتی کہ پیغمبر اسلامؐ کی بعض ازواج بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں، اس قبیلہ نے کوفہ کی بنیاد رکھتے وقت مسجد کوفہ کے جنوبی حصہ ميں رہنے کيلئے انتخاب کیا، جنگ جمل میں امام علیؑ کے شانہ بشانہ جنگ کی۔ 61ھ میں تحریک امام حسینؑ کے وقت بنی اسد 3 گروہ میں تقسیم ہو گئے تھے:
پہلا گروہ ناصرین آنحضرتؑ: قبیلہ بنی اسد کے سرداروں میں سے جو کربلا میں شہید ہوئے ان میں حبیب بن مظاہر اسدی، انس بن حرث، کاہل اسدی، مسلم بن عوسجہ اسدی، عمرو بن خالد صیداوی اسدی اور قیس بن مسہر صیداوی اسدی کے نام پائے جاتے ہیں۔
دوسرا گروہ مخالفین آنحضرتؑ: مخالف گروہ کا سردار حرملہ بن کاہل اسدی ہے جس نے روز عاشور امام حسین کے ؑششماہہ فرزند علی اصغر ؑکا قتل کیا اسی قبیلہ سے سپاہ یزید میں ازرق بن حرث صیداوی بھی شامل تھا ۔
تیسرا گروہ غیر جانبداران: جو نہر علقمہ کے کنارے نیز کربلا کے شمال مشرقی سر زمین کے علاقہ غاضریہ نامی بستی میں سکونت پزیر ہوئے اور روز عاشور غیر جانبدار رہنا پسند کیا، اس گروہ کو خود سید الشہداءؑ و حبیب بن مظاہر اسدیؑ نے مدد کے لیے بلایا لیکن آخری لمحات تک اس قبیلہ کی اکثریت نے غیر جانبداری کو ہی اختیار کیے رکھا۔
سید الشہداء کے عظیم و با وفا اصحاب کی شہادت کے بعد بنی اسد کے غیر جانبدار گروہ کی خواتین کا گذر میدان جنگ کی طرف سے ہوا تو امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کی نعشوں کے زیر آفتاب جلتی ہوئی سر زمین پر مشاہدہ سے شدت کے ساتھ متأثر ہوئیں اور سرزمین غاضریہ پر غیر جانبدار گروہ کی محل سکونت کی طرف بھاگتے ہوئے گئیں، اپنے مردوں سے شہداء کی لاشوں کو دفن کرنے کے لیے کہا، لیکن اس قبیلہ کے مرد ابن زیاد کے خوف سے لاشوں کو دفن کرنے کے لیے حاضر نہیں ہوئے کہ عملی اقدام کریں، لہذا بنی اسد کی خواتین نے بیلچے پھاؤڑے اور کدال اٹھایا اور کربلا کی سمت روانہ ہوئیں کچھ لمحوں کے بعد قبیلہ کے مردوں کا ضمیر بیدار ہوا تو اپنے قبیلہ کی خواتین کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور شہداء کے پیکر مطہر کو امام کی کی راہنمائی میں دفن کرنے لگے۔
واقعہ کربلا کے بعد یہی سب سے پہلی تحریک شمار کی جاتی ہے جو ابن زیاد اور بنی امیہ کے خلاف اٹھی، بنی اسد کی اسی قربانی نے انھیں دنیا کے شیعوں کے درمیان شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔
↑ابوریحان محمد بن احمد بیرونی خوارزمی، آلاثار الباقیہ عن القرون الخالیہ، ص331۔
↑البتہ کچھ مآخذ میں اہل بیت کے داخلہ شام کی تاریخ 16 ربیع الاول بیان کی گئی ہے: دیکھیں: (عماد الدین حسن بن علی طبری، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، ج2، ص293)۔