مغربی افریقا

مغربی افریقا، مختلف تعریفوں کے پیرائے میں

مغربی افریقہ (west africa) یا (western africa) براعظم افریقا کا مغربی ترین حصہ، اقوام متحدہ جو مزید 25 اپریل، 1945ء سے 26 جون، 1945ء تک سان فرانسسکو، امریکا میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ یا United Nations کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر، 1945ء میں معرض وجود میں آئی۔اور اسی کی تعریف کے مطابق اس خطے میں درج ذیل ممالک شامل ہیں:

ماریطانیہ کے علاوہ مندرجہ بالا تمام ممالک مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی انجمن کے ارکان ہیں۔ اقوام متحدہ کی تعریف میں برطانیہ کے ماتحت بحر اوقیانوس کا جزیرہ سینٹ ہلینا بھی اس خطے میں شامل ہے۔

اس خظے کی مغربی و جنوبی سرحدیں بحر اوقیانوس سے ملتی ہیں جبکہ صحرائے اعظم شمالی سرحدوں کے ساتھ واقع ہیں۔ دریائے نائجر کو اس کا سب سے شمالی خطہ سمجھا جاتا ہے۔ مشرقی سرحدیں واضح طور پر بیان نہیں تاہم بینیو ٹرف اور چند ماہرین کوہ کیمرون سے جھیل چاڈ تک فرضی خط کو سرحد مانتے ہیں۔

یہ علاقہ 6140000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس خطے کا بیشتر حصہ میدانی ہے جو سطح سمندر سے 300 میٹر بلند ہے تاہم جنوبی ساحلوں کے ساتھ مختلف ممالک میں چند بلند مقامات بھی موجود ہیں۔

مغربی افریقہ کا شمالی علاقہ نیم صحرائی علاقے ساحل پر مشتمل ہے جو صحرائے اعظم اور بلاد سودان کے درمیان واقع ہے۔ جنگلات ساحلوں اور ان میدانوں کے درمیان 160 سے 240 کلومیٹر چوڑے علاقے پر محیط ہیں۔

اس علاقے کی تاریخ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں پہلا دور قبل از تاریخ کا دور ہے جب قدیم ترین انسان یہاں آباد ہوئے اور زراعت کو فروغ حاصل ہوا اور انھوں نے شمال میں بحیرہ روم کے ساتھ واقع تہذیبوں کے ساتھ روابط کیے۔ دوسرا دور دور آہن کی سلطنتوں کا تھا جنھوں نے تجارت کو فروغ دیا اور مرکزی ریاستیں قائم ہیں۔ 8 ویں صدی میں سلطنت گھانا قائم ہوئی جس کے بعد جدید ماریطانیہ میں کومبی صالح کی حکومت بھی قائم ہوئی جس نے 1052ء میں مرابطین کے ہاتھوں شکست تک خطے کے بیشتر علاقے پر حکومت کی۔ مشہور افریقی حکمران منسا موسیٰ کی سلطنت مالی بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتی تھی۔ سونگھائی سلطنت کے عظیم بادشاہ اسکیائے اعظم کا تعلق بھی اسی خطے سے تھا۔ مسلمانوں کے عروج کے دور میں یہ علاقہ دنیا کے خوش حال علاقوں میں شمار ہوا۔ اس کے بعد 18 اور 19 ویں صدی میں یورپی نو آبادیاتی دور کا آغاز ہوا۔ چوتھا دور یہی نو آبادیاتی دور تھا جس میں فرانس اور برطانیہ نے پورے خطے پر قبضہ کر لیا۔ پانچواں اور آخری دور بعد از آزادی کا دور ہے جس میں موجودہ ممالک تخلیق ہوئے۔ 19 ویں صدی کے اوائل میں بلاد سودان میں فولانی تحریک کا آزاد ہوا جس کی اہم ترین شخصیت فولانی سلطنت کے عثمان دان فودیو تھے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی افریقہ میں قومیت کی تحریکیں جڑ پکڑ گئیں اور 1957ء میں گھانا اس خطے کا پہلا آزاد ملک بنا۔ 1974ء تک خطے کے تمام ممالک خود مختار ہو گئے۔ بعد از آزادی اس علاقے کے کئی ممالک سیاسی عدم استحکام، بد عنوانی اور خانہ جنگی کا نشانہ بن گئے جن میں نائجیریا، سیرالیون، لائبیریا اور آئیوری کوسٹ کی خانہ جنگیاں اور گھانا اور برکینا فاسو میں فوج کا اقتدار پر قابض ہونا قابل ذکر ہیں۔ کئی ممالک اہم معدنی ذخائر کے باعث اپنی معیشت کو ترقی دینے میں ناکام رہے جن میں نائجیریا اہم ہے۔ اس خطے کا ایک اور مسئلہ ایڈز ہے جو آئیوری کوسٹ، لائبیریا اور نائجیریا میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ شمالی مالی اور نائجر قحط سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔

مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی انجمن 1975ء میں معاہدہ لاگوس کے تحت قائم ہوئی جس کا مقصد خطے کی اقتصادیات کو بہتر بنانا ہے۔

متعلقہ مضامین