چین
چین | |
---|---|
پرچم چین | نشان |
شعار(انگریزی میں: China Like Never Before) | |
ترانہ: رضاکاروں کا مارچ | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 35°50′41″N 103°27′07″E / 35.844722222222°N 103.45194444444°E [1] |
بلند مقام | |
پست مقام | |
رقبہ | |
دارالحکومت | بیجنگ |
سرکاری زبان | معیاری چینی، چینی زبان |
آبادی | |
|
|
|
|
حکمران | |
طرز حکمرانی | یک جماعت ریاست، جمہوری مرکزیت، وحدانی ریاست |
اعلی ترین منصب | شی جن پنگ (14 مارچ 2013–) |
مقننہ | قومی عوامی کانگریس (چین) |
مجلس عاملہ | عوامی جمہوریہ چین کی ریاستی کونسل |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 1 اکتوبر 1949[2] |
عمر کی حدبندیاں | |
لازمی تعلیم (کم از کم عمر) | |
شرح بے روزگاری | |
دیگر اعداد و شمار | |
کرنسی | رینمنبی |
مرکزی بینک | پیپلز بینک آف چائنہ |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+08:00 |
ٹریفک سمت | دائیں |
ڈومین نیم | cn. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ، اورباضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | CN |
بین الاقوامی فون کوڈ | +86 |
درستی - ترمیم |
عوامی جمہوریہ چین موجودہ چین کو کہتے ہیں اور جمہوریہ چین سے مراد تائیوان اور اس سے ملحقہ علاقے ہیں
چین، جسے روایتی چینی میں中國؛ چونگ گوا کہتے ہیں، یعنی مرکزی علاقہ آسان چینی میں中国 کہتے ہیں۔ جو ایشیا کے مشرق میں واقع ثقافتی اور قدیم تہذیب کا علاقہ ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ چین پانچ ٹائم زونز کے مساوی پھیلا ہوا ہے اور زمین کے لحاظ سے چودہ ممالک کی سرحدوں پر پھیلا ہوا ہے، جو روس کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں سب سے لمبی سرحد ہے۔ تقریباً چھیانوے لاکھ مربع کلومیٹر (3,700,000 مربع میل) کے رقبے کے ساتھ، یہ کل زمینی رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین بائیس صوبوں، پانچ خود مختار علاقوں، چار میونسپلٹیوں اور دو نیم خود مختار خصوصی انتظامی علاقوں میں تقسیم ہے۔ قومی دار الحکومت بیجنگ ہے اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور سب سے بڑا مالیاتی مرکز شنگھائی ہے۔ چین دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے جو آج ایک کامیاب ریاست کے روپ میں موجود ہے۔ اس کی ثقافت چھ ہزار سال پرانی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ہونے والی چین کی خانہ جنگی کے اختتام پر چین کو دو ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا، ایک کا نام عوامی جمہوریہ چین اور دوسری کا نام جمہوریہ چین رکھا گیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے ماتحت مرکزی سر زمینِ چین، ہانگ کانگ اور مکاؤ ہیں جبکہ جمہوریہ چین کا کنٹرول تائیوان اور اس کے ملحقہ علاقوں پر ہے۔
چین کی تہذیب دنیا کی ان چند تہذیبوں میں سے ایک ہے جو بیرونی مداخلت سے تقریباً محفوظ رہیں اور اسی وقت سے اس کی زبان تحریری شکل میں موجود ہے۔ چین کی کامیابی کی تاریخ کوئی چھ ہزار سال قبل تک پہنچتی ہے۔ صدیوں تک چین دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم اور مشرقی ایشیا کا تہذیبی مرکز رہا جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔ اسی طرح چین کی سرزمین پر بہت ساری نئی ایجادات ہوئی ہیں جن میں چار مشہور چیزیں یعنی کاغذ، قطب نما، بارود اور چھاپہ خانہ شامل ہیں۔
چونگ گَوا
چین کو مندارین چینی میں چونگ گَوا کہتے ہیں۔ چونگ کا مطلب ہے درمیانی یا مرکزی اور گَوا کا مطلب ہے ملک یا علاقہ۔ اس کا اردو ترجمہ، مرکزی علاقہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم کچھ آراء یہ بھی پائی جاتی ہیں کہ چونگ گَوا کا مطلب (دنیا کا) مرکزی حصہ ہے۔ لیکن یہ اصطلاح چینی تاریخ میں باقاعدگی سے استعمال نہیں ہوئی اور مختلف اوقات میں اس کو مختلف سماجی اور سیاسی مطالب دیے گئے ۔ بہار اور خزاں کے دوران یہ اصطلاح اس ریاست کے لیے استعمال کی جاتی تھی جو مغربی ژاؤ بادشاہت سے منسوب تھی اور جو ییلو ریور (ہوانگ ہی) کی وادی میں تھی۔ لیکن اس میں کچھ علاقے شامل نہ تھے مثلا چو کے علاقے جو دریائے یانگشی کے کنارے واقع تھے اور مغرب کی طرف اوین کے علاقے۔ ہان بادشاہت کے دوران چو، اوین اور دوسرے منسلکہ علاقوں نے خود کو ژونگوو کے ساتھ جوڑ لیا اور یہ سب مل کر اب نئے ژونگوو ملک کے اٹوٹ انگ بن چکے تھے۔
ہان دور کے دوران اور قبل، چونگ گَوا کے تین مختلف معنی مستعمل تھے:
- دار الحکومت کے ارد گرد کا علاقہ یا بادشاہی علاقہ
- مرکزی حکومت کے براہ راست زیر انتظام علاقے
- وہ علاقہ جو اب چین کا شمالی میدان کہلاتا ہے
ہان بادشاہت کے اختتام پر ہونے والی تقسیم کے دوران، ژونگوو کی اصطلاح کو شمالی صوبے کے خانہ بدشوں نے نئے معنی پہنائے۔ ییلو دریا کی وادی کھونے کے بعد یہ معنی پختہ ہو گیا۔
چونگ گَوا نے تیزی سے حرکت کرکے مزید جنوبی علاقوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جس کے نتیجے کے طور پر یہ سارا علاقہ ایک سیاسی اکائی/وحدت بن گیا جو دریائے یانگشی اور دریائے ژوجیانگ پر مشتمل تھا۔ تنگ باشاہت کے دوران باربیرین سلطنتیں جیسا کہ ژیانگ بی اور ژیانگ نو بھی اس میں شامل ہو گئیں۔
موجودہ عوامی چین نے جب سے مین لینڈ کا نظم و نسق سنبھالا اور عوامی جمہویریہ چین نے ژونگوو سے مراد وہ تمام علاقے لیے جو ان کے سیاسی انتظام میں تھے۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ تمام 56 لسانی گروہ ژونگوورین ہیں اگرچہ یہ دعوٰی سیاسی طور پر متنازع ہے خصوصا جب چونگ گَوا سے مراد عوامی جمہوریہ چین لیا جاتاہے
چین
انگریزی اور دیگر زبانیں عموما لفظ چائنا کی مختلف شکلیں اور سینو یا سن کے لاحقے استعمال کرتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لاحقے اور الفاظ اوین بادشاہت کے نام سے لیے جاتے ہیں جس نے پہلی بار (221 سے 206 قبل مسیح) چین کو ایک ملک کے طور پر یکجا کیا۔ قن یا چن کی ابتدا ایک چھوٹے سے جنگجو قبیلے سے ہوئی جو شانزی کے علاقے میں آباد تھا، جبکہ ہان نسل کے چینیوں کی ابتدا دریائے ییلو کی مشرقی شاخ سے ہوئی، جس کے باعث لفظ چائنا کچھ جچتا نہیں ہے۔ قن یا چن بادشاہت نے چین کی تحریری زبان کو یکجا کیا اور چین کے حکمران کو بادشاہ کی بجائے شہنشاہ کا خطاب دیا۔ غالبا شاہراہ ریشم کے تاجروں نے اپنے آپ کو اسی نام سے کہلانا پسند کیا۔ لفظ چین یا چائنا کو ان معنوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے:
- موجودہ ملک، جو عوامی جمہوریہ چین کہلاتا ہے
- برعظیم چین
- وہ قدیم چین جو تاریخی طور پر چین کا حصہ رہا ہے
اقتصادی حوالے سے عظیم تر چین ایک غیر جانبدار اور غیر سیاسی حوالہ ہے جو برعظیم چین، ہانگ کانگ، مکاؤ اور بعض اوقات تائیوان کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح تائیوان کو اکثر اوقات جمہوریہ چین کا حصہ بھی مانا جاتا ہے۔
سینالوجیسٹس یا وہ افراد جو چین اور چینی قوم کا مطالعہ کرتے ہیں، عموما چائینیز یا چینی کا لفظ بہت محدود حوالے سے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ ژونگوو کا استعمال ہان قوم سے وابستہ ہے جو چین کے اندر اور باہر چینیوں کی آبادی کا کثیر حصہ ہے۔
کیتھی
اگرچہ کیتھی لفظ کا استعمال آج کل شاعری تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، لیکن یہ تاریخی حوالے سے کبھی یہ چین کا نام رہ چکا ہے، خصوصا شمالی نصف حصے میں۔ کیتھی کی ابتدا کھیتان نامی لسانی گروہ سے ہوئی جو شمالی چین کے اکثر حصے پر لیاؤ بادشاہت کے طور پر حکومت کرچکا ہے۔ اسے بعد ازاں جرکنز نامی ایک اور گروہ نے شمال مشرق سے اور منگولوں نے شمال سے ہٹا کر خود بادشاہت سنبھال لی۔ ایک ملتی جلتی اصطلاح، کیتے، ماڈرن سلواک زبانوں نے بہت زیادہ کثرت سے چین کے لیے استعمال کی ہے۔
سیریس
سیریس کا لفظ یونانیوں اور رومیوں کی طرف سے چین کے شمال مغربی علاقے اور اس کے باشندوں کو دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے ٬ریشم سے بنے٬ یا ٬جہاں سے ریشم آتا ہے٬۔ سوچا جاتا ہے کہ سیریس لفظ ریشم کے چینی نام سے نکلا ہے جو ٬سی ٬ ہے۔ یہی لفظ لاطینی میں ریشم کی ابتدا بنا ہے، یعنی سیریکا۔
سینائ
سینائی دنیا کے انتہائی مشرق میں رہنے والے سیریس کے جنوبی باشندوں کے لیے قدیم یونانی اور رومی نام ہے۔ سینائی کے حوالوں میں سینائ کا شہر کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ سینائ سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ لفظ اپنے پیشرو لفظ سینو اور سین سے نکلا ہوگا جو روایتی طور پر چین کے باشندوں اور چین کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
تاریخ
چین کو انسانی تہذیب کے اولین مراکز میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ چین کی تہذیب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ ان معدودے چند تہذیبوں میں سے ایک ہے جنھوں نے خود سے تحریری زبان ایجاد کی۔ دیگر تہذیبوں میں میسو پوٹامیا، دریائے سندھ کی تہذیب، مایا تہذیب اور قدیم مصری تہذیبیں ہیں۔ چینی لکھائی ابھی تک چینیوں اور جاپانیوں کے زیر استعمال ہے اور کسی حد تک کورین اور ویت نامی بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ چینی لکھائی واحد تحریر تاحال استعمال میں ہے جس میں ایک حرف پورے لفظ یا جملے کو ظاہر کر سکتا ہے۔
قبل از تاریخ
آرکیالوجی (سائنس کی ایسی شاخ جو ایسی قدیم تہذیبوں کا مطالعہ کرے جو ابھی تک زندہ ہیں) شہادتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ چین کے ابتدائی باشندے تقریباً سوا دو ملین یعنی تقریباً ساڑھے بائیس لاکھ سال پہلے موجود تھے۔ اگرچہ یہ باشندے انسانوں سے ملتی جلتی مخلوق تھی، جسے ہومو ایرکٹس کا نام دیا گیا تھا۔ ژہوکوڈیان نامی ایک غار، جو بیجنگ کے قریب واقع ہے، میں پیکنگ مین، فاسل یعنی متحجر شہادتیں ملی ہیں جو موجودہ سائنسی تکنیکوں کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ تین لاکھ سے ساڑھے پانچ لاکھ سال پہلے تک پرانی ہیں۔ قدیم پتھر سے بنے ہوئے ہتھیاروں کی تکنیک اور جانوروں کی ہڈیاں، جو ہومو ایرکٹس سے جوڑی گئی ہیں، کو اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پرکھا گیا ہے۔ یہ سوچا جاتا ہے کہ ابتدائی انسان نما مخلوق افریقہ میں پلیسٹوسین پیریڈ میں پروان چڑھے۔ بیس لاکھ سال پہلے کی ہجرت نے ان انسان نما مخلوق کو پرانی دنیا کے کونے کونے تک پھیلا دیا۔
آج کل کے انسان یعنی “ہوموسیپینز“ یا اشرف المخلوقات کا سوچا جاتا ہے کہ دو لاکھ سال قبل سے لے کر ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار سال قبل تک کے عرصے میں ایتھوپیا کے علاقے میں ارتقا پزیر ہوئے۔ ایک لاکھ سال قبل سے لے کر پچاس ہزار سال قبل تک موجودہ انسان دنیا کے کونے کونے تک پھیل چکا تھا۔ پچھلے ایک لاکھ سال کے دوران، دیگر ابتدائی انسانی آبادیاں ختم ہو گئیں کیونکہ موجودہ انسانوں نے انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
چین میں موجودہ انسانوں کی موجودگی کی سب سے پرانی شہادت لیوجیانگ سے ملی ہے، جو سر کی ہڈی ہے اور اس کا تخمینہ سڑسٹھ ہزار سال قبل کا لگایا گیا ہے۔ اسی طرح جزوی ڈھانچہ مینا ٹوگاوا کے علاقے میں پایا گیا ہے جو اٹھارہ ہزار سال پرانا ہے۔
بادشاہت
چینی ذرائع کے مطابق، پہلی بادشاہت کا آغاز ژیا بادشاہت سے ہوا۔ اس بات کو اس وقت تک ایک کہانی سمجھا جاتا رہا جب تک کہ تانبے کے دور سے تعلق رکھنے والی جگہوں یعنی ارلیٹو جو ہینن صوبے میں ہے، کی سائنسی کھدائی نہ ہوپائی۔ اس وقت سے اب تک آرکیالوجی کے ماہرین نے شہری علاقوں، تابنے کے استعمال اور مقبروں کو بے نقاب کیا ہے جو ژیا بادشاہت کے دور کے ممکنہ سراغ ہو سکتے ہیں کیونکہ ژیا بادشاہت اس علاقے میں قائم تھی۔
تاریخی اعتبار سے پہلی مستند بادشاہت شانگ کے نام سے تھی جو دریائے ییلو کے کنارے مشرقی چین میں اٹھارہویں صدی قبل مسیح سے لے کر بارہویں صدی قبل مسیح تک رہی۔ بعد ازاں ژاؤ نے مغرب کی طرف سے حملہ کرکے شانگ کے دور کا خاتمہ کیا اور اور بارہویں صدی قبل مسیح سے لے کر پانچویں صدی قبل مسیح تک ان کا اقتدار رہا۔ ژاؤ کی حکومت مقامی سرداروں کی لڑائیوں کے باعث کمزور پڑتی گئی۔ بہار اور خزاں کے عرصے کے دوران بے شمار مقامی حکومتیں بن گئیں جو ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار تھیں۔ ان حالات میں ژاؤ بادشاہت برائے نام ہی تھی۔ پہلی چینی متحد حکومت اوئن بادشاہت کے دور میں 221 قبل مسیح سے شروع ہوئی جب انھوں نے حکمرانی کا آغاز کیا۔ لیکن یہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی کیونکہ یہ لوگ قانون کی سختی سے پاسداری کرتے تھے جس کے نتیجے میں بغاوت پھیلنا شروع ہو گئی۔
ہان بادشاہت 206 قبل مسیح سے لے کر 220ء عیسوی تک رہی۔ 580ء عیسوی میں چین کو سوئی نے متحد کیا۔ تانگ اور سونت بادشاہتوں کے ماتحت چین کا سنہری دور رہا۔ ساتویں صدی سے چودھویں صدی عیسوی تک ٹیکنالوجی، ادب اور آرٹ کے حوالے سے چین بتدریج دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہوتا رہا۔ 1271ء عیسوی میں منگول رہنما قبلائی خان نے یوآن بادشاہت کا آغاز کیا جو سونگ بادشاہت کے زیر اثر بنی۔ ژو یوان ژینگ نامی کسان نے 1368ء میں منگولوں کو باہر نکالا اور منگ بادشاہت کی بنیاد رکھی جو 1644ء تک قائم رہی۔ منچو کی بنائی ہوئی اونگ بادشاہت 1911ء تک قائم رہی جسے بعد میں پوئی نے ختم کیا۔ اونگ کی بادشاہت چین کی آخری بادشاہت تھی۔
حکومت کی تبدیلی ایک خونریز مرحلہ ثابت ہوتا تھا اور نئی حکومت کو سابقہ حکومت سے وفاداری کا حلف لینے کے لیے بہت سے طریقے لڑانے پڑتے تھے۔ مثال کے طور پر جب منچوس نے چین کو فتح کیا تو انھوں نے ہان چینیوں کی شناخت کو دبانے کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ ہن چینیوں کو منچو جیسے انداز میں بال رکھنے ہوں گے۔
اٹھارہویں صدی میں چین کو مرکزی ایشیا کی ان اقوام پر واضح ٹیکنالوجییکل برتری حاصل ہو چکی تھی جن سے چین کئی صدیوں سے جنگیں کرتا چلا آ رہا تھا۔ لیکن یہ برتری یورپ سے کم تھی۔
انیسویں صدی میں چین نے یورپ کے امپیریلزم کے خلاف مدافعتی انداز اپنا لیا، اگرچہ یورپ سینٹرل ایشیا کی طرف پیش قدمی کرتا رہا۔ اس وقت چین بقیہ دنیا کی اہمیت محسوس کرکے بیدار ہو گیا۔ جیسے ہی چین نے بیرونی تجارت اور مشنری سرگرمیوں کے لیے راہ کھولی، افیم کھلے عام بکنے لگی۔ برطانیہ کے ساتھ ہونے والی دو افیونی جنگوں نے بادشاہ کے قبضے کو کمزور کر دیا۔ اس کے نتیجے میں تائی پنگ کی خانہ جنگی ہوئی جو 1851ء سے لے کر 1862ء تک جاری رہی۔ اس جنگ کی ابتدا ہونگ شیوگوان نے کی جو بطور خاص مسیحیت سے متائثر تھا اور وہ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا اور حضرت مسیح کا چھوٹا بھائی مانتا تھا۔ اگرچہ امپریلزم والی افواج کو اس میں فتح حاصل ہوئی لیکن یہ خانہ جنگی انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک جنگوں میں سے ایک تھی۔ اس جنگ میں دو کروڑ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں جو جنگ عظیم اول کی اموات سے بھی زیادہ ہیں۔ بعض اندازوں میں تین کروڑ افراد اس جنگ میں لقمہ اجل بنے۔ افیون کی کثرت نے مزید تباہی پھیلائی جسے کوئی نہ روک سکا۔ باکسر کی بغاوت جو 1900ء میں ہوئی، نے مزید تباہی پھیلائی۔ اگرچہ ملکہ سی شی نے باغیوں کی ڈھکے چھپے انداز میں مدد جاری رکھی، بظاہر اس نے بیرونی افواج کی مدد کی تاکہ اس بغاوت کو کچلا جا سکے۔ بعد ازاں باکسرز کو آٹھ غیر ملکی اتحادی افواج نے شکست دی اور 20 ہزار ٹن چاندی بطور تاوان جنگ وصول کی۔
جمہوری چین
یکم جنوری 1912ء کو عوامی جمہوریہ چین قائم ہوئی اور قنگ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ کُواومینتانگ یعنی نیشلسٹ پارٹی کے سون یات سن کو صوبائی گورنر بنایا گیا۔ تاہم ایک سابقہ قنگ جنرل یوآن شیکائی، جو انقلاب کے لیے ناموزوں سمجھا گیا تھا، نے سن کو ایک طرف کرکے خود صدارت سنبھال لی۔ یوآن نے خود کو نئی حکومت کا بادشاہ منوانے کی کوشش کی تاہم چینی سلطنت پر مکمل تسلط جمانے سے قبل قدرتی موت مر گیا۔
یوآن شیکائی کی موت کے بعد سیاسی لحاظ سے چین منقسم ہو چکا تھا۔ اس وقت بین الاقوامی طور پر مانی گئی لیکن درحقیقت کٹھ پتلی حکومت بیجنگ میں موجود تھی۔ مختلف علاقوں میں مقامی سرداروں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ 1920ء کے اختتام پر کُواومینتانگ یعنی نیشلسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کے زیر انتظام ملک کو اپنے زیر انتظام متحد کیا اور ملک کے دار الحکومت کو نانجنگ منتقل کیا اور سیاسی رہنمائی کے نظام کو لاگو کرنا شروع کیا۔ یہ نظام سن یات سین کے سیاسی ترقی کے پروگرام کی درمیانی حالت تھی جس کے مطابق چین کو بتدریج ایک جدید اور جمہوری ریاست بننا تھا۔ درحقیقت اس پروگرام کا مقصد ون پارٹی تھا جس پر کُواومینتانگ یعنی نیشلسٹ پارٹی کی حکومت ہوتی۔
سینو جاپانی جنگ جو 1937ء سے 1945ء (دوسری جنگ عظیم کا حصہ) تک جاری رہی، نے نیشنلسٹ اور کمیونیسٹ کو متحد ہونے پر مجبور کیا۔ 1945ء میں جاپان کی شکست کے بعد چین بظاہر فاتح لیکن درحقیقت معاشی طور پر خالی تھا۔ نیشنلسٹ اور کمیونسٹس کے درمیان غیر اعتباری کی وجہ سے چینی سول وار یعنی خانہ جنگی پھر سے شروع ہو گئی۔ 1947ء میں آئینی حکومت قائم ہوئی لیکن چونکہ عوامی جمہوریہ چین کے کئی صوبے خانہ جنگی میں شامل تھے، مین لینڈ پر اس آئین کو کبھی بھی رائج نہ کیا جاسکا۔
عوامی جمہوریہ چین اور جمہوری چین
خانہ جنگی میں فتح کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے مین لینڈ کا زیادہ تر حصہ سنبھال لیا۔ یکم اکتوبر 1949ء کو انھوں نے عوامی جمہوریہ چین قائم کی اور اور آر او سی کو بھی اپنا حصہ قرار دیا۔ آر او سی کی مرکزی حکومت کو تائیوان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ مسلح جنگوں کا اختتام 1950ء میں ہوا لیکن دونوں اطراف سے ابھی بھی تکنیکی اعتبار سے جنگ جاری تھی۔
1970 کی دہائی کے اختتام پر عوامی جمہوریہ چین نے اپنے زیر انتظام علاقوں یعنی تائیوان، تائی پی، کاوہسیونگ اور فیوجیان کے دور دراز کے جزائر پر مکمل، کثیر الجماعتی، نمائندہ جمہوریت کو رواج دینا شروع کیا۔ آج آر او سی میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے متحرک سیاسی نمائندگی ھورھی ہے۔ آر او سی کی سیاست میں اہم موڑ چین کے ساتھ اتحاد اور چین کی رسمی آزادی کے ساتھ جڑا ہے۔
1978ء کی مین لینڈ میں اصلاحات کے بعد انھیں کچھ شعبہ ہائے زندگی میں رعایات دینی پڑیں۔ تاہم چینی حکومت کے پاس ابھی تک سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل تھا اور اس نے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کو ہٹانے کا کام جاری رکھا۔ مثالوں میں دھشت گردی کے خلاف جنگ، سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو جیل بھیجنا، پریس پر کنٹرول، مذاہب کی اصلاح اور آزادی کی حامی تحاریک کو کچلنا شامل ہے۔ 1989ء میں تیانانمین سکوائیر میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو چینی فوج نے پندرہ روزہ مارشل لا میں ٹھکانے لگا دیا۔
1997ء میں ہانگ کانگ برطانیہ کی طرف سے عوامی جہموریہ چین کے حوالے کیا گیا اور 1999ء میں مکاؤ کی پرتگال کی طرف سے واپسی ہوئی۔
حال
آج جمہوریہ چین تائیوان تک پھیلی ھوئی ہے جبکہ عوامی جمہوریہ چین کے پاس چینی مین لینڈ کا کنٹرول موجود ہے۔ عوامی جمہوریہ چین پر کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ ہے جبکہ جمہوریہ چین جمہوریہ کی طرف مائل ہو رھی ہے۔ دونوں ریاستیں ابھی تک خود کو "چین" کا حکمران کہلانے کی کوشش کر رھی ہیں۔ جمہوریہ چین کے پاس 1949 کے فورا بعد سے بین الاقوامی حمایت زیادہ تھی لیکن اب یہ حمایت عوامی جمہوریہ چین کی طرف منتقل ھوگئی ہے۔ جمہوریہ چین کے اقوام متحدہ میں موجود نمائندوں کو 1970 میں عوامی جمہوری چین کے نمائندوں سے تبدیل کر دیا گیا۔
جمہوری چین نے نہ صرف تمام چین پر اپنے دعوے کو واپس لے لیا ہے بلکہ اپنے تمام نقشے بھی تبدیل کر دئے ہیں جس کے مطابق بیرونی منگولیا اور مین لینڈ بھی ان کے نقشے سے نکل گئے ہیں اور اب اس نے اپنی شناخت تائیوان کو بنا دیا ہے۔ اب جمہوری چین کا دعوٰی مین لینڈ کی ریاستوں، تبت یا منگولیا سے ختم ہو گیا ہے اور اب عوامی جمہوری چین یہ دعوٰی محفوظ رکھتی ہے۔ عوامی جمہوری چین نے سفارتی اور معاشی دباؤ کے ذریعے اپنی پالیسی کو ایک چین تک بڑھا دیا ہے اور اس سے متعدد بین الاقوامی اداروں میں جمہوریہ چین کا وجود خارج ہو رھا ہے جیسا کہ ورلڈ ھیلتھ آرگنائزیشن اور اولمپک کھیل وغیرہ۔ آج، اقوام متحدہ کی صرف چوبیس ریاستیں جمہوریہ چین سے تعلقات رکھتی ہیں۔
سیاست
چین میں یک جماعتی نظام رائج ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے، ساڑھے آٹھ کروڑ لوگ اِس کے رکن ہیں، یہ لوگ براہِ راست منتخب نہیں ہوتے، شہری اِس کی رکنیت کے لیے درخواست دیتے ہیں اور پھر پارٹی طے کرتی ہے کہ کوئی شخص رکن بنے کا اہل ہے یا نہیں، کون کمیونسٹ سوچ کا وفادار ہے کون نہیں، گویا ایک بہت بڑی آبادی سیاسی نظام سے پہلے مرحلے میں ہی باہر ہو جاتی ہے۔ چین میں معاشی آزادی ضرور ہے، آپ کاروبار کرکے ارب پتی بن سکتے ہیں مگر ایک خاص حد کے بعد آپ کی کمپنی میں کمیونسٹ پارٹی کا عہدے دار آ کر براجمان ہو جائے گا اور فیصلہ سازی کی ویٹو پاور اُس کے پاس ہوگی، ایسا نہیں ہوگا کہ وہ کمپنی کے کاروبار کو متاثر کرے گا مگر کمپنی بہر حال اُس کی مرضی کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
انتظامی تقسیم
عوامی جمہوریہ چین کو 22 صوبوں پر انتظامی کنٹرول ہے اور تائیوان کو اس کا تئیسواں صوبہ سمجھتا ہے، جبکہ تائیوان فی الحال آزادانہ طور پر جمہوریہ چین کی حکومت ہے۔[3]
22 صوبوں کے علاوہ سر زمین چین کی انتظامی تقسیم میں پانچ خود مختار علاقے اور چار بلدیات بھی شامل ہیں۔ جبکہ ہانگ کانگ اور مکاؤ کا شمار چین کے خصوصی انتظامی علاقوں میں ہوتا ہے۔
|
| ||||
|
تاریخی سیاسی تقسیمیں
اونچے درجے کی سیاسی تقسیم نے چین کو اور انتظامیہ دونوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اونچے درجے میں سرکٹس اور صوبے آتے ہیں۔ اس سے نیچے ریجنز یعنی علاقے، سب ریجنز، ڈیپارٹمنٹس، کمانڈریز، ضلعے اور کاؤنٹیز آتی ہیں۔ موجودہ تقسیموں میں سب ریجن لیول شہر، کاؤنٹی لیول شہر، قصبے اور ٹاؤن شپ شامل ہیں۔
زیادہ تر چینی بادشاھتیں ان علاقوں پر مشتمل تھیں جو تاریخی اعتبار سے چین کے مرکز کہلاتے تھے یعنی باقاعدہ چین۔
مختلف بادشاہتوں نے اپنی سرحدوں کو نزدیکی ریاستوں تک توسیع دی جیسے منگولیا کے اندر تک، مانچوریا، زنجیانگ اور تبت۔ مانچو کی بنائی ہوئی چنگ بادشاہت اور اسے بعد آنے والوں یعنی عوامی جمہوریہ چین اور جمہوریہ چین نے ان ریاستوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اصل چین وہی ہے جو دیوار چین سے لے کر سطح مرتفع تبت کے درمیان موجود ہے۔ مانچوریا اور منگولیا کے اندر کے حصے اگرچہ دیوار چین کے شمال میں ہیں اور اس کو چین کے صوبے اور انر منگولیا کے درمیان سرحد سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے دوسری جنگ عظیم کے دور میں یہ مانچوکو کی کٹھ پتلی حکومت کی سرحد تھے۔ زینیانگ کی سرحد آج کے زینیانگ کے قبضے کو ظاہر کرتی ہے۔ تبت کی سطح مرتفع پر شروع سے تبت کا ہی قبضہ رہا ہے۔ روایتی طور پر چین کو شمالی چین اور جنوبی چین میں تقسیم مانا جاتا ہے، دونوں حصوں میں ہُوائی دریا اور چنگ لنگ پہاڑوں کو سرحد مانا جاتا ہے۔
جغرافیہ اور موسم
چین کے علاقے ایک دوسرے سے بہت فرق ہیں، مغرب کی طرف سطح مرتفع اور پہاڑ ہیں جبکہ مشرق کی طرف میدان ہیں۔ نتیجتا بڑے دریا بشمول ینگتز دریا کے جو مرکزی دریا ہے، ہوانگ ہی اور آمور دریا مغرب سے مشرق کی طرف بہتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا رخ جنوب کی طرف بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ میکونگ دریا اور ہرہما پُترا۔ زیادہ تر چینی دریا بحر اوقیانوس میں جا گرتے ہیں۔
مشرق کی طرف، دریائے ییلو کے کناروں اور مشرقی چین دریا کے ساحلوں پر زرخیز مٹی کے میدان ہیں۔ اندرونی منگولین سطح مرتفع جو شمال کی جانب ہے، چراہ گاہیں موجود ہیں۔ جنوبی چین میں پہاڑیوں اور کم بلند پہاڑوں کی کثرت ہے۔ مرکز سے مشرق کی طرف چین کے دو بڑے دریاؤں یعنی ہوآنگ ہی اور ینگتز دریا کے ڈیلٹا ہیں۔ چین کی زیادہ تر زرعی زمین انہی دو دریاؤں کے کنارے واقعی ہے۔ دوسرے مشہور دریاؤں میں پرل دریا، میکانگ، برہم پُترا اور آمور دریا شامل ہیں۔ یونانگ صوبے کو میکانگ کا حصہ مانا جاتا ہے جس میں میانمار، لاؤس، تھائی لینڈ، کبوڈیا اور وینتام شامل ہیں۔
مغرب کی طرف چین کے زرخیز میدان ہیں اور جنوب میں چونے کے پتھر پر مشتمل اونچے زرخیز میدان موجود ہیں اور ہمالیا بھی اسی طرف موجود ہے جس میں دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ہے۔ شمال مغرب میں بھی اونچی سطح مرتفع پائی جاتی ہے جو بنجر اور صحرائی ہے جیسا کہ تاکلا-مکان اور صحرائے گوبی اور یہ مزید پھیل رہی ہے۔ کئی بادشاہتوں کے دوران چین کی جنوب مغربی سرحد انہی اونچے پہاڑوں اور یونان کی گہری وادیوں جو جدید چین کو برما، لاؤس اور ویتنام سے الگ کرتے ہیں، کومانا جاتا تھا۔
چین کی پیلوزوئک اشکال میں صرف اوپری حصے کے کاربونی فیرس نظام سے ہٹ کر، سارے کی ساری سمندری ہیں، جبکہ میسوزوئک اور ٹرشری ذخائر سے دریا اور سمندر کے ملاپ اور میٹھے پانی کو ظاھر کرتے ہیں۔ لیاوڈونگ اور شان ڈونگ کے جزیرہ نما علاقوں میں بسلاٹ کے سطح مرتفع ہیں۔
چین کے موسم میں بھی بہت فرق پایا جاتا ہے۔ شمالی زون جس میں بیجنگ بھی شامل ہے، اس میں انتہائی شدید سردی ہوتی ہے اور اسے آرکٹیک نوعیت کا کہا جاتا ہے۔ درمیانی علاقہ جس میں شنگھائی آتا ہے، معتدل علاقہ ہے۔ جنوبی علاقے جس میں گوانگ زاؤ شامل ہے، استوائی نوعیت کا حامل ہے۔
لمبی خشک سالی اور زراعت کے پرانے طریقوں کے باعث بہار کے موسم میں آندھیاں آنا معمول بن گیا ہے۔ یہ آندھیاں نہ صرف جنوبی چین اور تائیوان تک جاتی ہیں بلکہ امریکا کے مغربی ساحل تک پہنچ جاتی ہیں۔ پانی سے کٹاؤ اور آبادی پر کنٹرول دو ایسے مسائل ہیں جس پر چین کی باقی دنیا سے نہیں بنتی۔
معاشرہ
انسانی آبادی
چین کی کل آبادی ایک اعشاریہ تین ارب یعنی ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ چین میں سو سے زائد لسانی گروہ موجود ہیں لیکن عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ان میں سے صرف چھپن کو مانتی ہے۔ اب تک کا سب سے بڑا لسانی گروہ ہن ہے۔ یہ گروپ بہت ترقی یافتہ ہے اور اس کو مزید کئی چھوٹے گروہوں میں تقیم کیا جاسکتا ہے۔
بہت سے لسانی گروہ اپنے ارد گرد کے گروہوں میں مل گئے ہیں اور اب ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ ماضی کے بہت سے نمایاں گروہ اب ہن گروہ کے ساتھ مل کر چینی شکل کے حامل بن گئے ہیں، جس کے باعث ہن گروہ کی تعداد میں اچانک ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران ہن گروہ کے درمیان موجود بہت سے چھوٹے گروہوں نے اپنی شناخت کو الگ سے برقرار رکھا ہوا ہے اور ان کی اپنی لسانی اور ثقافتی خصوصیات ہیں لیکن وہ ابھی بھی اپنے آپ کو ہن گروہ کے نام سے ہی متعارف کراتے ہیں۔ بہت سے غیر ملکی گروہوں نے بھی ہن گروہ کی بود وباش اختیار کرلی ہے اور انھوں نے اپنے کو سورکی دم جیسی پونی بنا کر خود کو ہن سمجھنا شروع کر دیا ہے کیونکہ مانچوریوں نے ہن آبادی پر یہ شناخت لازمی قرار دے دی تھی۔ اصطلاح چینی قوم یعنی زہونگوا منزو سے مراد وہ تمام افراد ہیں جو چینی شہریت رکھتے ہیں اور چاہے وہ کسی بھی لسانی گروہ سے ہوں۔
زبانیں
چین کی اکثر زبانیں سینو-تبتین نامی لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ انتیس مختلف لسانی گروہوں میں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح چینی زبان کے اپنے بہت سارے لہجے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لہجہ مانڈارین جو ستر فیصد آبادی استعمال کرتی ہے، وُو جو شنگھائی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہے، یوی جسے کینٹوز کہتے ہیں، من، زیانگ، گان اور ہکا ہیں۔ غیر چینی زبانیں جو اقلیتیں بشمول زوانگ یعنی تھائی، منگولین، تبتین، یووغور یعنی تُرکک، ہمونگ اور کورین، استعمال ہوتی ہیں۔
پُتونگ ہوا یعنی میعاری مانڈارین یا جو عام استعمال کی بولی ہے، کو بیجنگ بولی کہا جاتا ہے اور یہ مانڈرین لوگ بولتے ہیں جو شمال اور جنوب مغربی علاقوں میں رہتے ہیں۔ معیاری مانڈرینی کو رسمی تعلیم دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسے تمام سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہی زبان میڈیا، سرکاری طور پر اور حکومت بھی استعمال کرتی ہے۔ غیر چینی زبانیں کچھ خود مختار علاقوں میں کو-آفیشل یعنی دوسری سرکاری زبانوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
چینی زبان یا بائی ہوا کو بیسویں صدی کے ابتدا مانڈرین زبان کا معیاری تحریری رسم الخط مانا جاتا ہے۔ اسے بیسویں صدی سے قبل ہزاروں سال سے لکھے پڑھے چینی استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کلاسیکی چینی ابھی بھی ہائی اسکول کورس کا حصہ ہے اور اکثر چینیوں کی ڈگری کا بھی حصہ ہوتی ہے۔ مانڈرین زبان کے دوسرے لہجے عموما لکھے نہیں جاتے، ماسوائے معیاری کینٹوز جو غیر روائینی طور پر استعمال ہوتی ہے۔ چینی کرنسی نوٹ بھی کثیرالسانی ہوتے ہیں جو عموما معیاری مانڈرین زبان جو چینی الفاظ اور ہان ہو پینین، زوانگ جو رومن الفاظ کے ساتھ، تبتین جو تبتی الفاظ کے ساتھ، یوغور جو عربی الفاظ کے ساتھ اور منگولین جو روائیتی منگولین الفاظ کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔
مذاہب
ثقافتی انقلاب کے بعد اور دیگر پالیسیوں کے بعد، عوامی جمہوریہ چین کے مین لینڈ کے انسٹھ فیصد حصے یعنی سات سو سرسٹھ فیصد آبادی خود کو لادین کہتے ہیں۔ تاہم مذاہب اور رسومات ابھی بھی عوامی جمہوریہ چین کے شب و روز میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، خصوصا بدھ ازم، کنفیوشس ازم اور تاؤ ازم پر روایتی اعتقاد شامل ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کی ایک تہائی یعنی تیتنس فیصد آبادی مختلف اعتقادات کی پیروی کرتی ہے جسے روایتی، پرانے چینی اعتقادات یا محض دیگر اعتقادات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جمہوریہ چین یعنی تائیوان میں مذاہب کے بہت سے پیروکار ہیں کیونکہ یہ ثقافتی انقلاب سے متائثر نہیں ہوا تھا۔ مذاہب اور پرانی چینی روایات بھی تایئوان کی روز مرہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکی سی آئی اے یعنی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کے سرکاری اعداد و شمار کچھ ایسے ہیں:
- 93% چینی آبادی بدھ ازم، کنفیوشس ازم اور تاؤ ازم کی حامی ہے
- 2۔5% تائیوانی آبادی دیگر مذاہب جیسا کہ اسلام، یہودیت اور دیگر مذاہب کی حامی ہے
- 4۔5% آبادی مسیحیت کی پیروکار ہے، اس میں پروٹسنٹ، کیتھولک، مورمن اور دیگر اقلیتی مسیحی گروہ شامل ہیں
عوامی جمہوریہ چین کے بڑے مذاہب کچھ ایسے ہیں:
- کنفیوشس ازم
- تاؤ ازم
- آبا و اجداد کی پرستش
- بدھ مت
- اسلام
- مسیحیت
جمہوریہ چین یعنی تائیوان کے بڑے مذاہب کچھ ایسے ہیں:
- بدھ مت
- تاؤ ازم
- کنفیوشس ازم
مین لینڈ چین کے صرف چھ فیصد لوگ بدھ ہیں اور ماہیانہ بدھ مت اور زن بدھ مت کی زیادہ پیروی کی جاتی ہے جبکہ تائیوان میں یہ نو فیصد ہے جو بدھ مت، تاؤ ازم اور کنفیوشس ازم کا مرکب ہے۔ دس کروڑ پیروکاروں کے باعث بدھ مت کو عوامی جمہوریہ چین کا سب سے بڑا مذہب مانا جاتا ہے۔ بدھ مت کی دوسری شکلیں جیسا کہ تھیرا ویڈا بدھ مت اور تبتین بدھ مت کو بھی اقلیتیں بڑے پیمانے پر مانتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں دو کروڑ مسلمان جو زیادہ تر ہوئی ہیں، ڈیڑھ کروڑ پروٹسٹنٹ اور پچاس لاکھ کیتھولک بھی یہاں ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین کو سرکاری طور پر سکیولر اور لادین مانا جاتا ہے لیکن مذہب کی انفرادی طور پر پیروی کی اجازت ہے اور حکومتی نگرانی میں مذہبی جماعتیں بھی بنائی جا سکتی ہیں۔ تاؤ ازم اور بدھ مت اور کنفیوشین اخلاقیات دوہزار سال سے ملک کے بڑے مذاہب ہیں۔ انفرادی سطح پر مذاہب کو پورے چین میں قبول کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے بدھ مت اور تاؤ ازم کو گذشتہ کچھ عرصے سے نئی زندگی ملی ہے۔ کچھ سالوں سے شہری لادین آبادی کی نئی نسل میں تاؤ ازم کے روحانی خیالات جو فینگ شوئی نے پیش کیے تھے، بہت مقبول ہو رہے ہیں اور اس سے چین کی ہوم ڈیکوریشن مارکیٹ بھی بڑھ رہی ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے فالون گونگ حکومتی پابندی کے بعد سے بہت شہرت حاصل کی ہے کہ یہ مشکوک مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور اسے ختم کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ فالون گونگ نے اگرچہ اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ کوئی نیا مذہب ہے۔ فالون گونگ کا دعوٰی ہے کہ سات سے دس کروڑ افراد اس کے پیرو کار ہیں، غیر ملکی ذرائع اس تعداد کو زیادہ بتاتے ہیں لیکن کوئی حقیقی اعداد و شمار نہیں ملے۔
ثقافت
چین میں دور بادشاہت کے دوران کنفیوشزم کے فلسفہ کو کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی تھی اور اس پر عبور حاصل کیے بغیر کوئی بندہ شاہی ملازمت حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اسی طرح خطاطی کو ڈراما نویسی یا مصوری سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔ چین کی روایات کنفیوشزم اور پرانے خیالات کا مجموعہ تھیں۔ اسی طرح قانون کی لفظی تشریح پر زور دیا جاتا تھا۔ اس طرح اکثر اوقات فلسفے ٹکرا جاتے تھے۔ امتحانات اور حق دار کی برتری کو آج بھی چین میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں کنفیوشزم کے حامیوں نے جمہوری خداؤں اور انسانی حقوق کو ایک دوسرے کے ساتھ مماثل قرار دیا ہے۔ انیسویں صدی کی نصف کے بعد چینی معیشت اور فوجی طاقت میں اضافہ ہوا اور غیر چینی سماجی اور سیاسی اداروں نے چین میں اثربڑھایا۔ ان میں سے کچھ اصلاحات کو تو چینی ثقافت نے بالکل ہی رد کر دیا اور باقیوں نے اپنی طاقت بڑھنے کی کوشش کی تاکہ وہ چینی ثقافت کا مقابلہ کرسکیں۔ خلاصہ یہ کہ بیسیوں صدی کا چین سماجی، سیاسی اور معیشی اعتبار سے ایک نیا تجربہ ہے جو شاہی نظام کے زوال کے بعد چینی قوم کی بیداری کا سبب بنا۔
عوامی جمہوریہ چین کے پہلے رہنما پرانے معاشرے میں پیدا ہوئے تھے اور ان پر چار مئی کی تحریک اور اصلاحی رہنماؤں کا اثر تھا۔ انھوں نے چین کی ثقافت کے کچھ پہلوؤں جیسا کہ دیہی زمین کی مزارعت، جنیسات اور کنفیوشس کی تعلیمات کو بدلا جبکہ دوسروں جیسا کہ خاندان کے ڈھانچے اور حکومت کی وفاداری کو قائم رکھا۔
چاول کو چینی ثقافت میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ نہ صرف یہ خوراک کا اہم جزو وہے بلکہ اس سے بہت سے چینی قصے کہانیاں وابستہ ہیں۔ چاول چین کی سب سے اہم اور بڑی فصل ہے اور اسے زیادہ تر دریائے ینگتز کی وادی میں جنوبی چین میں اور یونن گوئی زاؤ کی سطح مرتفع میں اگایا جاتا ہے۔ چین میں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ چاول اگایا اور کھایا جاتا ہے۔ کچھ تاریخ دان یہ کہتے ہیں کہ چاول کی کاشت کی ابتدا چین سے ہی ہوئی۔
فن اور ادب
چینی کردار ابتدا سے لے کر اب تک بہت تبدیلیوں سے گذرے ہیں۔ دسیوں ہزار سال پرانی دستاویزات ابھی تک موجود ہیں، پرانی الوحی ہڈیوں سے لے کر چنگ قوانین تک۔ خطاطی کو چین میں فن کی بڑی شاخ گردانا جاتا ہے۔ مذہبی داستانیں جو زیادہ تر کنفیوشس، تاؤسٹ اور بدھسٹ تھیں، برش اور سیاہی سے لکھی گئیں۔ بعد ازاں خطاطی کو تجارت بنا دیا گیا اور مشہور خطاطوں کے کام کو ایک قیمتی ملکیت گردانا جانے لگا۔
پرنٹ میکنگ سونگ بادشاہت کے دوران پروان چڑھی۔ شاہی تعاون سے بنائی جانے والی اکادمیاں بنائی گئیں جو کلاسیکی چیزوں کو خطاطی اور پرنٹنگ سے لکھنے پر مباحثہ کرتی تھیں۔ شاہی خاندان بھی ان مباحثوں میں بکثرت حصہ لیتے تھے۔
چینی فلسفی، لکھاری اور شاعروں کو بہت زیادہ عزت دی جاتی تھی اور انھوں نے چین کی ثقافت کو بچانے اور ترویج دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ کلاسیکی سکالروں نے عام لوگوں کی زندگی کو بھی موضوع بنایا جو حکام کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔
چینیوں نے بہت سارے موسیقی کے آلات ایجاد کیے جیسا کہ زہنگ، چن، شنگ، زیاو اور ارہُو، پیپا شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سارے بعد ازاں مشرقی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا خصوصا جاپان، کوریا اور ویت نام تک پھیل hi everyone تصغیر
کھیل اور تفریح
شہادت ملتی ہے کہ ایک ہزار عیسوی میں چین میں فٹ بال کی طرح کا ایک کھیل کھیلا جاتا تھا۔ کئی تاریخ دان یہ سمجھتے ہیں کہ فٹ بال کی ابتدا چین سے ہوئی۔ چین میں پروفیشنل فٹ بال ابھی تک اپنی ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ مارشل آرٹس، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن اور حال ہی میں گولف بھی مشہور ہو رہے ہیں۔ باسکٹ بال کو بھی جہاں جگہ کی کمی ہے، شہری نوجوانوں میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی روایتی کھیلیں ہیں۔ چینی ڈریگن بوٹ کی ریس ڈوان وُو کے میلے میں ہوتی ہے۔ اندرونی منگولیا میں منگولی انداز کی کشتی اور گھڑ دوڑ مقبول ہیں۔ تبت میں میلوں ٹھیلوں میں تیر اندازی اور گھڑ سواری سے متعلق کھیلوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
چین اس وقت ایشیا اور دنیا میں ایک سپورٹس کی طاقت مانا جاتا ہے۔ 1982ء سے اب تک چین ہر ایشیائی کھیل میں تمغوں کی دوڑ میں سب سے آگے رہا ہے۔ اور 1992ء سے اب تک ہر گرمائی اولمپکس میں پہلی چار نمبروں میں رہا ہے۔ 2008ء کی گرمائی اولمپکس جنہیں Games of the XXIX Olympiad کہتے ہیں، بیجنگ میں ہوں گی۔
جسمانی طور پر چاق و چوبند ہونے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ صبح کی ورزشیوں کو باقاعدہ شغل مانا جاتا ہے اور پارکوں میں لوگ ورزش کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
بورڈ گیمیں جیسا کہ بین الاقوامی شطرنج، گو اور زیانگ جی یعنی چینی شطرنج بھی عام ہیں اور ان کے باقاعدہ مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی
ثقافتی اعتبار سے ترقی کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں چینی ترقی کچھ ایسے ہے:
- ایشیائی ایباکس
- بلاسٹ بھٹی (سٹیل کے لیے)
- بلاک پرنٹ میکنگ/ پرنٹنگ ٹیکنالوجی
- تابنا
- کیلیپر جو پیمائش کے لیے استعمال ہوتے ہیں
- گھڑی
- کمپاس یعنی قطب نما
- کراس بو
- خشک گودی
- پنکھے
- آتش بازی اور سالڈ فیول راکٹ
- مچھلی کے شکار کی بنسی
- بارود
- بم
- ہاٹ ائیر بیلون
- پتنگ
- وارنش
- ماچس
- کاغذ
- کاغذی نوٹ اور دیگر مالیاتی ادارے
- پیراشوٹ
- تیل کے کنویں
- پسٹن والا پمپ
- پورسیلین
- پروپیلر
- امدادی نقشہ
- پہیا
- بیج بونے والا ڈرل
- زلزلہ پیما
- ریشم
- رکاب
- سسپنشن برج یعنی لٹکتے پُل
- ٹائلٹ پیپر
- ٹوتھ برش
- چھتری
- وال پیپر
- چھکڑا
- وہسکی ادوایاتی اور جراحی کے مقاصد کے لیے
ٹیکنالوجی کے دوسرے رخ
- ریاضی کو آرکیٹیکچر اور جیوگرافی میں استعمال کیا گیا۔ پانچویں صدی میں چینی ریاضی دان زو چونگ زہی نے پائی یعنی π کی اعشاریہ کی ساتویں مقدار تک قیمت معلوم کی۔ چینی اعشاری اعداد کے نظام کو چودھویں صدی قبل مسیح سے استعمال کر رہے ہیں۔پاسکل کی مثلث، جسے چین میں یانگ ہوئی کی مثلث کہتے ہیں، چیا ہزین، یانگ ہوئی، زاؤ شی جی اور لیو جوْہزیہ نے پاسکل کی پیدائش کے پانچ سو سال قبل دریافت کی۔
- حیاتیات جیسا کہ ادویاتی کتب اور ادویاتی نباتات
- روایتی ادویات اور جراحی کو گزشتہ کچھ دہائیوں سے ثانوی علاج کی حیثیت دی گئی ہے
- فوجی ایجادات جیسا کہ کراس بو اور گرڈ سائٹ، کراس بو رکاب، خودکار کراس بو، مجنیق، زہریلی گیس جو خشک سرسوں کو جلانے سے پیدا ہوتی تھی، آنسو گیس جو باریک لائم کو جلانے سے بنتی تھی، جنگوں میں استعمال ہونے والی امدادی نقشے، انسان بردار پتنگ، آگ والے نیزے، راکٹ، جلنے والا بارود، بم اور پرانی تانبے کی مشین گن
فہرست متعلقہ مضامین چین
حوالہ جات
- ↑ "صفحہ چین في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2024ء
- ↑ فصل: 36 — عنوان : The Rise of Modern China — اشاعت ششم — صفحہ: 833 — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس — ISBN 978-0-19-512504-7
- ↑ Gwillim Law (2 اپریل 2005). Provinces of China. Retrieved 15 اپریل 2006.
ویکی ذخائر پر چین سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
بیرونی روابط
- China.org.cn China news, weather, business, travel, language courses, archives
- China from UCB Libraries GovPubs
- China information from the U.S. Department of State