بارود

ترک سلطانی توپ، جو ایک بھاری بھرکم ہتھیار، جس میں بارود استعمال کیا جاتا تھا، 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے زیر استعمال رہا

بارود، آتش گیر مادے کی ایک قسم ہے جو گندھک، کوئلہ اور پوٹاشیم نائٹریٹ سے مل کر بنتا ہے۔ بارود پوٹاشیم نائٹریٹ اور کوئلہ ملانے سے بھی بن سکتا ہے مگر سلفر کے بغیر اس کی قوت اور توانائی کا اخراج نسبتاً کم ہوتا ہے۔ بارود جلدی جلنے والا مادہ ہوتا ہے اور اس کے جلنے سے گرم گیس کا اخراج ہوتا ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی اور نائٹروجن پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ باقی بچ جانے والا مادہ پوٹاشیم سلفائیڈ ہوتا ہے۔[1] بارود کے جلد جلنے اور وسیع مقدار میں حرارت اور گیس کی پیداوار کی وجہ سے اسے ہتھیاروں اور دوسرے آتش گیر مادوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بارود کے وسیع معنی میں کوئی بھی آتش گیر مادہ لیا جا سکتا ہے۔ جدید ہتھیاروں میں روایتی بارود کا استعمال موقوف کیا جا چکا ہے جو اس مقالے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس روایتی بارود کی بجائے ان ہتھیاروں میں دھویں کے بغیر بارودی مواد استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ قدیم ہتھیاروں یا کئی ممالک میں اب بھی دستیاب روایتی ہتھیاروں میں یہ بارود اب بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بارود کو درجہ بندی کے لحاظ سے آتش گیر مادہ مانا جاتا ہے، کیونکہ یہ بہت ہی آہستہ ختم ہوتا ہے اور اس کے جلنے کے نتیجے میں نسبتاً کم چمک اور دھماکا ہوتا ہے۔ گولی کے پچھلے حصے میں استعمال ہونے والا بارود جلنے کے نتیجے میں اتنا دباؤ پیدا کرتا ہے جو گولی کو تیز رفتار سے آگے کی جانب دھکیل سکے۔ اگر بارود کی مقدار یا خاصیت زیادہ ہو تو یہ نہ صرف گولی بلکہ پستول یا طمنچے کی نالی کو تباہ کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بارود چٹانوں اور پتھروں کو توڑنے کے لیے کم اہمیت والا مادہ ہے جبکہ اسی کے مقابلے میں ٹی این ٹی یا بھاری آتش گیر مادہ اس مقصد کے لیے زیادہ موزوں سمجھا جاتا ہے۔

حوالہ جات

  1. کیپٹن جیمز بینٹن (1862ء)۔ آتش گیر مادہ۔ صفحہ: 8 

بیرونی روابط