بلوچستان تنازع

بلوچستان تنازع

پاکستان،ایران اور افغانستان میں بلوچ آبادی والے علاقے گلابی رنگ میں دکھائے گئے ہیں،جن کے لیے بلوچ علیحدگی پسند الگ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں
تاریخ1948-تاحال
اہم واقعات: 1948، 1958–59، 1963–69، 1973–77، 2004–تاحال
مقامبلوچستان
حیثیت

جاری

مُحارِب

 پاکستان

حمایت:
 چین (2004 سے)[1]
 ریاستہائے متحدہ
 افغانستان (2004 سے)
 متحدہ عرب امارات


 ایران[2]

  • ایمپریل آرمی (1979 تک)
  • آئی آر جی سی (بعد از 1980)
  • بارڈر گارڈ (بعد از 2000)

بلوچ علیحدگی پسند گروہ

حمایت:
 عراق (1970 کی دہائی)[3]
افغانستان کا پرچم جمہوری جمہوریہ افغانستان (1992 تک)


فرقہ وارانہ گروہ
جند اللہ(ایران)[4][5]
جیش‌العدل
جند اللہ(پاکستان)
القاعدہ
لشکرجھنگوی[3]

سپاہ صحابہ[3]
کمان دار اور رہنما

لیاقت علی خان (1947-1951)
ایوب خان (1974-1979)
ذوالفقار علی بھٹو (1971–1979)
ٹکا خان (1979–2002)
رحیم الدین خان (1979–1988)
پرویز مشرف (2001–2008)
اشفاق پرویز کیانی (2007–2013)
راحیل شریف (2013-تاحال)


شاہ رضا پہلوی (1979–1980)
ایران کا پرچم روح اللہ خمینی (1979–1989)
ایران کا پرچم آیت اللہ سید علی خامنہ ای (1989-تاحال)
ایران کا پرچم سید محمد خاتمی (1979–2005)

ایران کا پرچم Hassan Firouzabadi (1979–تاحال)

کریم خان (جنگی قیدی)
نوروز خان (جنگی قیدی)
نواب خیر بخش مری  
میر بالاچ مری  
براہمدغ خان بگٹی[8]
اللہ نذر بلوچ
Javed Mengal[9]


دادشاه  
عبدالمالک ریگی  
عبدالحمید ریگی  

Muhammad Dhahir Baluch[حوالہ درکار]
طاقت

پاکستان کا پرچم پاکستان

چین کا پرچم چین

بی ایل اے: 10,000[11]


جنداللہ: 700[12]-2,000[13]
ہلاکتیں اور نقصانات

پاکستان کا پرچم Pakistani security forces
1973–1977:
3,000–3,300 ہلاک[14]
2006–2009:
303+ ہلاک[15]
چین کا پرچم Chinese armed forces
2004-تاحال:
نامعلوم


ایران کا پرچم ایران
154 ہلاک (security forces and civilians)[16]

بلوچ فائیر
1973–1977
5,300 ہلاک[14]
2006–2009:
380+ ہلاک[15]


~6,000 پاکستان میں شہری ہلاک (1973–1977)[14]
1,628+ پاکستان میں شہری ہلاک (2004–2009)[10][15]
~4,500 گرفتار (2004–2005)[10]
~140,000 بے گھر (2004–2005)[10]

چین کا پرچم 3 چینی انجینئر ہلاک
4 اغوا
5 تیل کے ٹینکر damaged[1]

بلوچستان تنازع بلوچ قوم پرستوں اور حکومت پاکستان و ایران کے درمیان چلنے والا ایک گوریلا جنگ ہے۔ اس تنازع کا خطہ پاکستانی صوبہ بلوچستان، ایرانی صوبہ سستان بلوچستان اور افغانی بلوچستان ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند بلوچستان کے وسائل پر اختیار اور الگ ریاست چاہتے ہیں جبکہ پاکستان ،ایران اور افغانستان کے حکومتیں اسے بغاوت اور مخالفین کے سازشیں ٹھہراتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے فریقین (بلوچ علیحدگی پسندوں اور حکومت پاکستان، ایران و افغانستان) پر انسانی حقوقی کی پامالی کا الزام لگتا رہا ہے۔[17]

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں اس سے پہلے کئی مرتبہ اس طرح کے تنازعات 1948, 1958–59, 1962–63 اور 1973–77 میں بھی سامنے آئے۔ لیکن موجودہ تنازع جو ان سب سب سے شدت والا ہے، 2003ء میں شروع ہوا۔ اس تنازع نے شدت زیادہ اس لیے اختیار کی کیونکہ پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں قانون و نفاذ کا مسئلہ رہا جس کے پاکستان پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ افغانستان جنگ نے نہ صرف پاکستانی بلوچستان بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں خاص کر خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات پر بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ تنازع کے شدت کی ایک وجہ وفاق کے سطح پر عدم استحکام بھی بنا۔ عام طور پر لوگوں میں یہ تعصور پایا گیا کہ وفاق پسماندہ اور چھوٹے صوبوں کی طرف توجہ نہیں دیتا۔

علیحدگی پسندوں کیجانب سے حکومت کے تمام بڑے اور اہم تنصیبات پر حملے کیے گئے جن میں ایک فوجی کنٹونمنٹ بھی شامل ہے جو کوئٹہ شہر میں واقع ہے۔ باغیوں نے اس کنٹونمنٹ پر بھی حملہ کیا جس میں اعلیٰ فوجی افسران جاں بحق ہوئے۔[18] پاکستان کا موقف ہے کہ بلوچستان میں کچھ بیرونی قوتیں مداخلت کر کے دہشت گردی کر رہے ہیں اور پاکستان بیرونی مداخلت کو روکنے کے لیے اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے جائے گا۔[19][20][21][22][23] دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسندوں کا یہ موقف ہے کہ مرکزی یا وفاقی حکومت بلوچستان کو توجہ نہیں دیتا،بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ قدرتی وسائل فراہم کرنے والا خطہ ہے لیکن پھر بھی سب سے زیادہ پسماندگی اور غربت بلوچستان میں ہے۔[24]

بلوچ ری پبلکن آرمی کو پاکستان اور برطانیہ دونوں نے ایک دہشت گرد کالعدم تنظیم قرار دیا ہے۔[25]۔ بلوچ ری پبلکن آرمی نے کئی دہشت گردانہ حملے کیے ہیں جن میں بہت بڑی تعداد میں نہتے شہری مارے گئے ہیں۔ اس طرح کے دیگر کالعدم تنظیموں میں لشکر بلوچستان اور بلوچ لیبریشن فرنٹ شامل ہیں جن کو کئی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث پایا گیا ہے جن میں پاکستانی فوجی،پولیس اور بے گناہ شہری مارے گئے ہیں۔[26][27][28] امریکا نے بلوچستان لبریشن آرمی کو ’عالمی دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے دیا۔[29]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ Kiyya Baloch (27 مارچ 2015)۔ "Chinese Operations in Balochistan Again Targeted by Militants"۔ The Diplomat۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-02
  2. Abubakar Siddique (20 اکتوبر 2009)۔ "Jundallah: Profile Of A Sunni Extremist Group"۔ Radio Free Europe/Radio Liberty۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-06-17
  3. ^ ا ب پ B Raman (25 جنوری 2003)۔ "Iraq's shadow on Balochistan"۔ Asia Times۔ 2010-11-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21 {حوالہ ویب}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  4. Hossein Aryan۔ "Iran Offers Short-Term Solutions To Long-Term Problems Of Baluch Minority – Radio Free Europe / Radio Liberty 2010"۔ Radio Free Europe/Radio Liberty۔ 2010-11-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21 {حوالہ ویب}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  5. "Iranian group makes kidnap claim – Middle East"۔ Al Jazeera۔ 10 اکتوبر 2010۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21
  6. "IB advise talks with Baloch separatists"۔ Dawn۔ 29 فروری 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-02
  7. "President, PM must talk to Baloch leadership: Nawab Talpur"۔ Pakistan Observer۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-19
  8. "PressTV – Baloch rebels 'linked with Afghanistan'"۔ Press TV۔ 3 ستمبر 2009۔ 2016-03-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21
  9. "Butchering settlers on Independence day"۔ Pakistan Observer۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-06-17
  10. ^ ا ب پ ت ٹ Ray Fulcher (30 نومبر 2006)۔ "Balochistan: Pakistan's internal war"۔ Europe Solidaire Sans Frontières۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-06-17
  11. Maloy Krishna (10 اگست 2009)۔ "Balochistan: Cruces of History- Part II"۔ Maloy Krishna Dhar۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21
  12. "Asia Times Online :: South Asia news, business and economy from India and Pakistan"۔ Asia Times۔ 7 اگست 2009۔ 2010-11-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21 {حوالہ ویب}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  13. "Asia Times Online :: South Asia news, business and economy from India and Pakistan"۔ Asia Times۔ 25 فروری 2010۔ 2010-11-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21 {حوالہ ویب}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  14. ^ ا ب پ "Eckhardt, SIPRI 1988: 3,000 military + 6,000 civilians = 9,000, Clodfelter: 3,300 govt. losses"۔ Users.erols.com۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-10-14
  15. ^ ا ب پ "Balochistan Assessment – 2010"۔ Satp.org۔ 2010-11-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-21 {حوالہ ویب}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  16. Patrick Goodenough (20 جون 2010)۔ "Iran Executes Insurgent Leader, Accused of Ties With American Intelligence"۔ CNSnews.com۔ 2016-01-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-07-06
  17. "Baloch separatists attack traders"۔ BBC News۔ 27 جولائی 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-19
  18. Malik Siraj Akbar (3 نومبر 2014)۔ "The End of Pakistan's Baloch Insurgency?"۔ World Post۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-24
  19. Pakistan to seek extradition of top Baloch insurgents - The Express Tribune
  20. RAW instigating terrorism, says army - Pakistan - DAWN.COM
  21. "Indian RAW Involved in Balochistan and Karachi Unrest"۔ 2017-05-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-02
  22. 'RAW Is Training 600 Balochis In Afghanistan'
  23. Makhdoom Babar (23 فروری 2012)۔ "Indian RAW's 'Kao Plan' unleashed in Balochistan"۔ Terminal X۔ 2015-07-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-02
  24. Geoffrey Kemp (2010)۔ The East Moves West: India, China, and Asia's Growing Presence in the Middle East (1st ایڈیشن)۔ Brookings Institution۔ ص 116۔ ISBN:978-0-8157-0388-4
  25. "Proscribed Terrorist Organisations"۔ Home Office (Government of the United Kingdom۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-02
  26. "Balochistan: "We only receive back the bodies""۔ The Economist۔ Quetta۔ 7 اپریل 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-07-06
  27. "Waking up to the war in Balochistan"۔ BBC News۔ 28 فروری 2012۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-07۔ The civil war has left thousands dead – including non-Baloch settlers and has gone on for the past nine years, but it hardly made the news in Pakistan, let alone abroad.
  28. ""Their Future is at Stake": Attacks on Teachers and Schools in Pakistan's Balochistan Province" (PDF)۔ نگہبان حقوق انسانی۔ دسمبر 2010۔ militant Baloch groups such as the Baloch Liberation Army (BLA) and the Baloch Liberation United Front (BLUF) seeking separation or autonomy for Balochistan have targeted Punjabis and other minorities, particularly in the districts of Mastung, Kalat, Nushki, Gwadar, Khuzdar, and Quetta.
  29. [BBC امریکا نے بلوچستان لبریشن آرمی کو ’عالمی دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے دیا https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48842471]