راجیہ سبھا
راجیہ سبھا | |
---|---|
قسم | |
قسم | بھارتی پارلیمان کا ایوان بالا |
مدت | 6 برس |
قیادت | |
صدر نشین (نائب صدر) | وینکائیا نائیڈو (بھارت) از 11 اگست 2017 |
نائب صدر نشین | ہری ونش نارائن سنگھ، جنتا دل (متحدہ) از 9 اگست 2018 |
قائد ایوان | |
قائد حزب اختلاف | |
ساخت | |
نشستیں | 245 (233 + 12 نامزد شدہ) |
سیاسی گروہ | حکومت (102)
حزب اختلاف (143)
دیگر (77)
|
انتخابات | |
نظام رائے شماری | سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ |
پچھلے انتخابات | 16 جنوری، 23 مارچ 2018ء اور 21 جون 2018ء |
اگلے انتخابات | مئی – جون 2019ء |
مقام ملاقات | |
راجیہ سبھا چیمبر، سنسد بھون، سنسد مارگ، نئی دہلی، بھارت – 110 001 | |
ویب سائٹ | |
rajyasabha | |
پاورقی حواشی | |
^† 73 میں سے 65 بی جے پی ارکان منتخب شدہ اور 8 نامزد شدہ ہیں۔ |
راجیہ سبھا بھارتی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔ لوک سبھا کو ایوان زیریں کہا جاتا ہے۔ راجیہ سبھا میں کل 250 نشستیں ہیں جبکہ حالیہ قانون محض 245 اراکین کی اجازت دیتا ہے۔ 12 اراکین بھارت کے صدر کی طرف سے نامزد ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو نامزد رکن کہا جاتا ہے۔ ریاستوں و یونین علاقوں کے دیگر اراکین واحد قابل انتقال ووٹ کے ذریعے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ راجیہ سبھا میں ہر رکن 6 سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، جن میں ایک تہائی اراکین ہر 2 سال میں سبکدوش ہوتے ہیں۔[1]
راجیہ سبھا کا اجلاس مسلسل ہوتا رہتا ہے اور لوک سبھا کے برخلاف راجیہ کبھی تحلیل نہیں ہوتی ہے۔ لوک سبھا کے مقابلے راجیہ سبھا کم طاقتور ہے کیونکہ لوک سبھا کے اراکین کی تعداد زیادہ ہے مگر اختیارات کے معاملے دونوں یکساں ہیں البتہ سپلائی کے میدان میں لوک سبھا کے اختیارات بڑھے ہوئے ہیں۔ اگر دونوں ایوانوں کے درمیان میں کسی بل کو لے کر اختلاف ہوجائے تو مشترک اجلاس منعقد کیا جاتا ہے مگر ایسا خال خال ہی ہوتا ہے۔ اب تک محض تین مرتبہ ہی مشترک اجلاس ممکن ہو سکا ہے۔
نائب صدر بھارت راجیہ سبھا کا صدر نشین ہوتا ہے۔ اور وہی تمام اجلاس کی صدارت کرتا ہے۔ راجیہ سبھا کا نائب صدر نشین (راجیہ سبھا کے نائب چیرمین) موجودہ ارکان میں سے منتخب ہوتا ہے اور وہ چیرمین کی غیر موجودگی میں اس کا کام دیکھتا ہے۔ راجیہ سبھا کا پہلا اجلاس13 مئی 1952ء کو ہوا تھا۔[2] 18 کولائی 2018ء کے بعد سے راجیہ سبھا کے اراکین 22 زبانیں بول سکتے ہیں تاکہ بھارت کی 22 سرکاری زبانوں کی نمائندگی ہو سکے۔[3]
اہلیت
آئین ہند کی دفعہ 84 رکن راجیہ بننے کی اہلیتیں مندرجہ ذیل ہیں:[4]
- بھارت کا شہری ہو۔
- بھارتی الیکشن کمیشن کی موجودگی میں آئین کے تیسرے فہرست بند کے مطابق حلف لے۔
- 30 سال کی عمر مکمل کر چکا ہو۔
- ودھان سبھا میں منتخب ہو چکا ہو[5]
- کوئی مجرمانہ الزام نہ ہو۔
- ذہنی طور پر بیمار نہ ہو۔
- آفس آف پرافٹ نہ رکھتا ہو۔
- بھارتی پارلیمان کے بنائے ہوئے دیگر قوانین کی پاسداری کرتا ہو۔
12 دیگر اراکین جن کو صدر منتخب کرتا ہے ان میں کوئی خاص صلاحیت ہو یا کسی خاص میدان کا اچھا خاصا تجربہ ہو۔ آئین ہند کی دفعہ 55 کے تحت ان 12 ارکان کو صدر کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔
پابندیاں
آئین ہند کے راجیہ سبھا پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں جن کی وجہ سے لوک سبھا کے اختیارات اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔
رقمی بل
آئین ہند کی دفعہ 110 میں رقمی بل کومتعارف کرایا گیا ہے۔
” | اگر کسی بل میں مندرجہ ذیل خاصیتیں پائی جائیں تو وہ رقمی بل(Money bill) کہلائے گا
|
“ |
رقمی بل کو صرف لوک سبھا میں ہی پیش کیا جا سکتا ہے جس کے لیے صدر کی سفارش بھی ضروری ہے۔ اگر لوک سبھا میں رقمی بل منظور ہو جائے تب وہ راجیہ سبھا میں بھیجا جاتا ہے جہاں اسے 14 دنوں سے زیادہ نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اس دوران میں راجیہ سبھا اپنی سفارشات دے سکتا ہے۔ اگر 14 دنوں کے اندر راجیہ سبھا لوک سبھا کو بل نہیں بھیجتا ہے تو اسے پاس مانا جاتا ہے۔ لوک سبھا کو راجیہ کی تمام یا کچھ سفارشات کو نا منظور کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ راجیہ سبھا کی حیثیت صرف تجویز دینے کی ہے۔[7]
مشترک اجلاس
آئین ہند کی دفعہ 108 مشترک اجلاس کے بارے میں بتاتی ہے۔ دونوں ایوانوں میں سے ایک اگر کسی بل کو مسترد کر دے یا چھ ماہ تک روکے رکھے یا راجیہ سبھا لوک سبھا کی تجویزوں کو نہ مانے تو لوک سبھا اسپیکر کی صدارت میں مشترک اجلاس کی نوبت آتی ہے۔ چونکہ لوک سبھا میں اکثریت حکومت کے ارکان کی ہوتی ہے اور دونوں ایوانوں میں سے لوک سبھا میں ارکان زیادہ ہوتے ہیں لہذا مشترک اجلاس میں عموماً حکومت کی جیت ہوتی ہے حالانکہ راجیہ سبھا میں حکومت میں اقلیت میں ہو۔ بھارتی پارلیمان کی تاریخ میں اب تک تین مرتبہ مشترک اجلاس ہوئے ہیں:
- 1961ء: دہیز مخالف ایکٹ، 1958ء
- 1978ء: بینکنگ سروس کمیشن ایکٹ، 1977ء
- 2002ء: سد دہشت گردی ایکٹ، 2002ء
تحریک عدم اعتماد
لوک سبھا کے برخلاف راجیہ سبھا میں کوئی بھی رکن حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لا سکتا ہے۔
اختیارات
بھارت ایک فیڈرل حکومت ہے اور اس کے فیڈرل نظام میں راجیہ سبھا ریاستوں کی نمائندگی کرتی ہے جسے کونسل آف اسٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے راجیہ سبھا کو یونین کے خلاف ریاستوں کے تحفظ کے لیے اختیارات دیے گئے ہیں۔
یونین ریاست تعلقات
آئین ہند پارلیمان کو ریاست کے خصوصی امور میں قانون بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا صرف راجیہ سبھا میں ممکن ہے جہاں دو تہائی اکثریت سے بل کو پاس کیا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کو راجیہ سبھا کی منظوری کے بغیر ریاست کے معاملے میں کسی قانون کے بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
آل انڈیا سروسز کی تخلیق
دو تہائی اکثریت کی منظوری سے راجیہ سبھا ایسا بل منظور کرسکتی ہے جس کی رو سے حکومت کو مرکز اور ریاست کے لیے مزید آل انڈیا سروسز کی تخلیق کا جواز مل جاتا ہے۔ اس میں جوڈیشیل سروسز بھی شامل ہیں۔
ساخت
راجیہ سبھا میں نشستوں کا الاٹمنٹ ریاستوں اور یونین علاقوں کی آبادی کے تناسب سے بقایا تماسب کے تحت کیا جاتا ہے۔[8] تمام ارکان ریاستی کونسل سے منتخب ہو کر آتے ہیں لہذا جن یونین علاقوں میں ریاستی کونسل ہیں ہے راجیہ سبھا میں ان کی نمائندگی نہیں ہے جیسے جزائر انڈمان و نکوبار، چندی گڑھ، دادرا و نگر حویلی، دمن و دیو اور لکشادیپ۔ 12 ارکان صدر بھارت نامزد کرتا ہے۔ آئین ہند کے چوتھے درج فہرست کے مطابق راجیہ سبھا میں 216 نشستیں تھیں جن میں سے 12 کو صدر نامزد کرتا ہے اور 204 ریاستوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔[9] موجودہ وقت میں 245 نشستیں ہیں جن میں 233 ارکان ریاستوں کی نمنائندگی کرتے ہیں اور 12 کو صدر منتخب کرتا ہے۔[10]
ریاست/یونین علاقہ کی راجیہ سبھا میں نمائندگی
ریاست/یونین علاقہ | نشستیں |
---|---|
آندھرا پردیش[11] | 11 |
اروناچل پردیش | 1 |
آسام | 7 |
بہار (بھارت) | 16 |
چھتیس گڑھ | 5 |
گوا | 1 |
گجرات (بھارت) | 11 |
ہریانہ | 5 |
ہماچل پردیش | 3 |
جموں و کشمیر | 4 |
جھارکھنڈ | 6 |
کرناٹک | 12 |
کیرلا | 9 |
مدھیہ پردیش | 11 |
مہاراشٹر | 19 |
منی پور | 1 |
میگھالیہ | 1 |
میزورم | 1 |
ناگالینڈ | 1 |
دہلی | 3 |
نامزد | 12 |
اوڈیشا | 10 |
پدوچیری | 1 |
پنجاب، بھارت | 7 |
راجستھان | 10 |
سکم | 1 |
تمل ناڈو | 18 |
تلنگانہ[11] | 7 |
تریپورہ | 1 |
اتر پردیش | 31 |
اتراکھنڈ | 3 |
مغربی بنگال | 16 |
Total | 245 |
حوالہ جات
- ↑ Yashwant Deshmukh (11 جون 2016)۔ "Crucial polls today: A guide to calculus of Rajya Sabha for dummies"۔ Firstpost۔ 19 جون 2016 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2016
{حوالہ ویب}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "OUR PARLIAMENT"۔ Indian Parliament۔ 17 مئی 2011 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2011
{حوالہ ویب}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "Rajya Sabha MPs can now speak in 22 Indian languages in House"
- ↑ "Council of States (Rajya Sabha) – rajyasabha.in"۔ 18 جون 2012 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
{حوالہ ویب}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "HANDBOOK FOR RETURNING OFFICERS – FOR ELECTIONS TO THE COUNCIL OF STATES AND STATE LEGISLATIVE COUNCILS" (PDF)۔ Election Commission of India۔ 1992۔ ص 400–426۔ 10 جنوری 2017 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اگست 2017
{حوالہ ویب}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ آئین ہند، دفعہ 110،
- ↑ "Website of the Rajya Sabha – Legislation"
- ↑ "642 Sidharth Chauhan, Bicameralism: comparative insights and lessons"۔ 18 مئی 2015 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2015
{حوالہ ویب}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "Composition of Rajya Sabha – Rajya Sabha At Work" (PDF)۔ rajyasabha.nic.in۔ Rajya Sabha Secretariat, New Delhi۔ 5 مارچ 2016 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2015
{حوالہ ویب}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "Composition of Rajya Sabha – Rajya Sabha At Work" (PDF)۔ rajyasabha.nic.in۔ Rajya Sabha Secretariat, New Delhi۔ 5 مارچ 2016 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2015
{حوالہ ویب}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب "Rajya Sabha members alloted [sic] to Telangana, Andhra Pradesh"۔ The Economic Times۔ 30 مئی 2014۔ 9 فروری 2014 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اکتوبر 2015
{حوالہ خبر}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت)
مزید دیکھیے
ویکی ذخائر پر راجیہ سبھا سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |